وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ ۖ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ
اور (پھر دیکھو) ہم نے (تمہاری رہنمائی کے لیے پہلے) موسیٰ کو کتاب دی۔ پھر موسیٰ کے بعد ہدایت کا سلسلہ پے در پے رسولوں کو بھیج کر جاری رکھا، بالآخر مریم کے بیٹے عیسیٰ کو سچائی کی روشن نشانیاں دیں، اور روح القدس کی تائید سے ممتاز کیا (لیکن ان میں سے ہر دعوت کی تم نے مخالفت کی) پھر کیا تمہار شیوہ ہی یہ ہے کہ جب کبھی اللہ کا کوئی رسول ایسی دعوت لے کر آئے جو تمہاری نفسانی خواہشوں کے خلاف ہو، تو تم اس کے مقابلے میں سرکشی کر بیٹھو، اور کسی کو جھٹلاؤ، کسی کو قتل کردو
انبیاء علیہم السلام عوام کے جذبات کی پرواہ نہیں کرتے : (ف ١) موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت نامی کتاب دی گئی جو الواح کی صورت میں تھی خط مسماری کا ان دنوں رواج تھا ، اس لئے کتابیں عموما پتھروں پر کندہ ہوتیں موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد مسلسل بنی اسرائیل میں انبیاء علیہم السلام آئے ، تاکہ اللہ کے پیغام کو پوری وسعت وقوت کے ساتھ بندوں تک پہنچا سکیں ، مگر بنی اسرائیل برابر جہل وجمود کے تاریک گڑھوں میں گرے رہے ، زیادہ سے زیادہ چند ظاہری رسوم ان کا متاع تدین تھا روح اور مفر سے محروم تھے ، اس لئے فسق وفجور کے باوجود اپنے آپ کو اللہ کے مقرب ہی سمجھتے رہے ، بالآخر اللہ تعالیٰ نے مسیح (علیہ السلام) کو بھیجا ایک کتاب مقدس دے کر جو ان کے تاریک دلوں میں اجالا کر دے ، جو ان کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے اور جو ان کے اخلاق پاکیزہ تر بنا دے ، روح کا اطلاق قرآن میں کتاب پر ہوا ہے ، قرآن حکیم کے متعلق ارشاد (آیت) ” وکذلک اوحینا الیک روحا من امرنا “۔ یعنی قرآن بھی ایک روح ہے جسے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے ، اس لئے روح القدس سے مؤید ہونے کے معنی صرف یہی ہوں گے کہ انہیں انجیل جیسا پاک صحیفہ دیا گیا جس میں تذکروتزکیہ کی پوری قوت ہے ، مگر بنی اسرائیل نے انجیل کی پاک اور بلند اخلاق تعلیم پر بھی عمل نہ کیا ، اس لئے کہ اس میں انہوں ان کی کاریوں پر صاف صاف ٹوکا گیا تھا ، لیکن اس سے خدا کا قانون اصلاح ورشد نہیں بدل سکتا ، انبیاء کی بعثت کا مقصد عوام کے جذبات کی رعایت نہیں بلکہ اصلاح ہے ،