ثُمَّ أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِّنكُم مِّن دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِم بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِن يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ ۚ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
لیکن (پھر دیکھو) تم ہی وہ اقرار کرنے والی جماعت ہو جس کے افراد ایک دوسرے کو بے دریغ قتل کرتے ہیں اور ایک فریق دوسرے فریق کے خلاف ظلم و معصیت سے جتھا بندی کر کے اس اس کے وطن سے نکال باہر کرتا ہے (اور تم میں سے کسی کو بھی یہ بات یاد نہیں آتی کہ اس بارے میں خدا کی شریعت کے احکام کیا ہیں؟) لیکن پھر جب ایسا ہوتا ہے کہ تمہارے جلا وطن کیے ہوئے آدمی (دشمنوں کے ہاتھ پڑجاتے ہیں اور) قیدی ہو کر تمہارے سامنے آتے ہیں تو تم فدیہ دے کر چھڑا لیتے ہو (اور کہتے ہو شریعت کی رو سے ایسا کرنا ضروری ہے) حالانکہ (اگر شریعت کے حکموں کا تمہیں اتنا ہی پاس ہے تو) شریعت کی رو سے تو یہی بات حرام تھی کہ انہیں ان کے گھروں اور بستیوں سے جلا وطن کردو (پھر یہ گمراہی کی کیسی انتہا ہے کہ قیدیوں کے چھڑانے اور ان کے فدیہ کے لیے مال جمع کرنے میں تو شریعت یاد آجاتی ہے لیکن اس ظلم و معصیت کے وقت یاد نہیں آتی جس کی وجہ سے وہ دشمنوں کے ہاتھ پڑے اور قید ہوئے؟) کیا یہ اس لیے ہے کہ کتاب الٰہی کا کچھ حصہ تو تم مانتے ہو اور کچھ حصے سے منکر ہو؟ پھر بتلاؤ تم میں سے جن لوگوں کے کاموں کا یہ حال ہے انہیں پاداش عمل میں اس کے سوا کیا مل سکتا ہے کہ دنیا میں ذلت و رسوائی ہو اور قیامت کے دن سخت سسے سخت عذاب ! یاد رکھو اللہ (کا قانون جزا) تمہارے کاموں کی طرف سے غافل نہیں ہے
ایمان بالبعض وکفر بالبعض : (ف1) یہودیوں کا یہ وطیرہ مذہب کے باب میں اس مذہبی اہلیت کا پتہ دیتا ہے جو ان کے دلوں میں مستتر تھی ، غالبا وہ برائے نام یہودی تھے اور کسی نہ کسی طرح مذہبی رکھ رکھاؤ کا خیال تھا ، ورنہ مذہب کے صحیح ذوق سے وہ محض کورے تھے ۔ مدینے میں اوس وخزرج نامی دو قومیں آباد تھیں جن میں آئے دن کوئی نہ کوئی جنگ رہتی ، یہودی بحیثیت حلیف ہونے کے ان کا ساتھ دیتے رہے ، کچھ لوگ اوس کی طرف ہوجاتے اور کچھ خزرج کا ساتھ دیتے ۔ اور اس بےدریغی سے لڑتے کہ گویا یہی اصل فریق متخاصم ہیں اور جب ایک دوسرے کے ہاتھ میں بحیثیت قیدی کے پیش ہوتے تو پھر توریت کے اس حکم کا خیال آتا کہ یہودی یہودیوں کے ہاتھوں غلام نہیں رہ سکتا ، لہذا کچھ روپیہ بطور فدیہ کے دے کر قیدی چھڑا لیتے ، قرآن حکیم کہتا ہے کہ یہ کیا مذاق ہے ؟ اور تلعب ہے توراۃ کے احکام کے ساتھے کہ جب آپس میں لڑنا ہی جائز نہیں تو پھر فدیہ کا سوال کیوں پیدا ہوتا ہے ، مگر تمہارے دلوں میں یہودیت کی اتنی عزت ہے کہ تم اس کی ذلت ورسوائی نہیں دیکھ سکتے تو پھر تم لڑتے ہی کیوں ہو ؟ جو اس کا سب سے بڑا باعث ہے ، یہ فعل بالکل اس قسم کا ہے کہ ایک شخص کو بلاوجہ مار ڈالا جائے اور پھر اس کے بچوں کی تربیت کی حمایت کی جائے کہ بےچارے یتیم ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ان کے یتیم ہونے کا باعث کون ہے؟ تم جو قیدیوں سے اتنی ہمدردی رکھتے ہو اور اس کا اظہار فدیہ کی صورت میں کرتے ہو ‘ اس سے کیا فائدہ ؟ جبکہ ایک یہودی کو قتل کردینا عملا تمہارے ہاں درست اور جائز ہے۔ قرآن حکیم کہتا ہے ، ایمان کی یہ شکل کہ بعض حصے مان لئے جائیں اور بعض کا انکار کردیا جائے قطعی سود مند نہیں ، ایمان نام ہے ایک کامل نظام عمل کا ، اگر اس میں ایک چیز کو بھی عمدا چھوڑ دیا جاتا ہے تو ایمان نہیں رہے گا ، البتہ اس کو تجارت کہیئے جو چیز پسند آئی ، خرید لی ، جو مرغوب نہ ہوئی ، ترک کردی ، اور مذہب کے بارے میں اس قسم کی تجارت الحاد وزندقہ ہے جو قطعی برداشت نہیں کیا جاسکتا ، یہ نرمی لامذہبی اور کفر ہے ، ایسے لوگ خدا کے ہاں کبھی کامیاب نہیں رہتے جن کے پاس نہ کفر خالص ہے اور نہ ایمان ہی کامل ۔ چنانچہ یہودی اس بےاعتقادی کی بنا پر اور اس تشتت وافتراق کی وجہ سے اپنی تمام نو آبادیوں سے محروم ہوگئے ، ان کے نخلستان چھین لئے گئے ، ان کی بستیاں نذر آتش کردی گئیں اور آخرت میں ان کے لئے جو مقدرو متعین ہے وہ اس سے زیادہ سخت اور ہولناک ہے ۔ حل لغات : تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ: تَظَاهَر عَلَيْهِ ، اس کے خلاف دشمن کو مدد دی ، ظَهِيرٍ: کے معنی ہوتے ہیں مددگار اور ناصر کے ۔ أُسَارَى: جمع اسیر بمعنی قیدی ۔ خِزْيٌ: ذلت ورسوائی ۔