وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنسِ ۖ وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُم مِّنَ الْإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا ۚ قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ
اور (اس دن کا دھیان رکھو) جس دن اللہ ان سب کو گھیر کر اکٹھا کرے گا، اور (شیطانین جنات سے کہے گا کہ) اے جنات کے گروہ ! تم نے انسانوں کو بہت بڑھ چڑھ کر گمراہ کیا۔ اور انسانوں میں سے جو ان کے د وست ہوں گے، وہ کہیں گے : اے ہمارے پروردگار ! ہم ایک دوسرے سے خوب مزے لیتے رہے ہیں۔ (٥٧) اور اب اپنی اس میعاد کو پہنچ گئے ہیں جو آپ نے ہمارے لیے مقرر کی تھی۔ اللہ کہے گا ؛ (اب) آگ تم سب کا ٹھکانا ہے، جس میں تم ہمیشہ رہو گے، الا یہ کہ اللہ کچھ اور چاہے۔ (٥٨) یقین رکھو کہ تمہارے پروردگار کی حکمت بھی کامل ہے، علم بھی کامل۔
(ف ١) دنیا میں گناہ کے لئے قدم قدم پر آسانیاں ہیں ، جہاں چاہو ، جب چاہو ، نافرمانی اور معصیت کا ارتکاب کرلو مشکل یہ ہے کہ نیک بنو شرارت اور گناہ کے بےشمار وداعی اور اسباب ہیں ، نیکی اور صداقت کے محرکات کم ہیں ایک طرف نفس امارہ ہے ، اس کی خواہشیں ہیں ، شیاطین کے دامہائے تزویر ہیں ، اور دھوکے ہیں ، کچھ پنہاں ہیں ، کچھ ظاہر ہیں ، دوسری جانب تنہا عقل ، جس کی بیچارگی معلوم ۔ ان آیات میں نہایت سادہ انداز میں اس حکیمانہ حقیقت کو بیان کیا گیا ہے ، قیامت کے دن اللہ شیطانوں سے کہے گا ، تم نے بہت گمراہی پھیلائی ، آج مکافات کا دن ہے ، آؤ تمہیں سزا دیں ، کمزور ایمان کے لوگ جو شیطان کے بھرے میں جلد آجاتے ہیں ، اعتراف کریں گے کہ ہم نے دنیا میں ان سے تعاون کیا ، اور ہم دونوں مجرم ہیں ۔ حل لغات : الا ما شآء اللہ : تاکید مضمون کے لئے ہے یعنی جہنم سے تمہیں کوئی قوت نہیں نکال سکتی ۔ معشر : گروہ ، جماعت ۔ القری : جمع قریۃ ، بمعنی بستی ۔