سورة البقرة - آیت 84

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور پھر و (وہ معاملہ یاد کرو) جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے تم سے عہد لیا تھا : آپس میں ایک دوسرے کا خون نہیں بہاؤ گے اور نہ اپنے آپ کو (یعنی اپنی جماعت کے افراد کو) جلا وطن کرو گے۔ تم نے اس کا اقرار کیا تھا اور تم (اب بھی) یہ بات مانتے ہو۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ٢) (آیت) ” دمآء کم اور انفسکم “ کے معنی یہ ہیں کہ سارے بنی اسرائیل ایک قوم اور ایک جسم ہیں ، ان سب میں انبیاء کا خون موجزن ہے ، اس لئے ان کا آپس میں جنگ وجدل میں مصروف رہنا وحدت قومی کو شدید نقصان پہنچاتا ہے ، نیز اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ کوئی قوم اس وقت تک قوم کہلانے کی مستحق نہیں ہوسکتی جب تک وہ قومی حرمت واعزاز کو محسوس نہ کرے ، مذہب کا مقصد جہاں نسلی اور قبائلی نقیضات کو ختم کرتا ہے ، وہاں ایک مضبوط اور غیور اور باحمیت قوم کی تخلیق وتعمیر بھی ہے ، تاکہ وہ خدا کے مشن کو دلیرانہ پورا کرسکے ، وہ لوگ جو قوم کے رشتہ قومیت کو توڑتے ہیں ، وہ قوم کے مجرم ہیں اور خدا کے بھی ، اس لئے بنی اسرائیل کو لڑائی جھگڑے سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے کہ اس سے زیادہ قومی وقار کو ختم کردینے والی اور کوئی چیز نہیں ۔ اسلام نے قتل مومن کی سزا نہایت سنگین رکھی ہے ، (آیت) ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزآءہ جہنم “۔ کیونکہ قتل مومن کے معنی یہ ہیں کہ اس کے دل میں اسلام کا کوئی وقار نہیں مسلمانوں کی محبت نہیں وہ نفس خدا اور قوم کے سامنے غدار وخائن کی حییثت رکھتا ہے اس کا جرم قطعا ناقابل معافی ہے اور اسی لئے ناقابل عفو بھی ۔ حل لغات : احسانا : حق واجبی سے زائد یعنی والدین کے احکام کی بجا آوری ہی کافی نہیں ، بلکہ حقوق سے بہت کچھ زیادہ ، از راہ احسان ومحبت ان سے سلوک کیا جائے جو کسی طرح بھی معمولی نہ ہو ۔ الیتمی : جمع ، یتیم ، وہ بچہ جو شفقت مادری وپدری سے محروم ہوجائے ، وہ عورت جس کا خاوند نہ رہے ، ۔ المسکین : جمع مسکین کی ، سکون سے نکلا ہے ، وہ شخص جو بےبسی کے باعث کوئی حرکت نہ کرسکے یا جسے افلاس وناداری نے ہر طرح کی شوخی سے روک رکھا ہو ۔ تشھدون : شھادۃ ۔ سے نکلا ہے معنی ہیں تم دیکھتے ہو ، گواہ ہو ۔