وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُوا فِيهَا ۖ وَمَا يَمْكُرُونَ إِلَّا بِأَنفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ
اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے مجرموں کے سرغنوں کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ اس (بستی) میں (مسلمانوں کے خلاف) سازشیں کیا کریں۔ (٥٥) اور وہ جو سازشیں کرتے ہیں، (درحقیقت) وہ کسی اور کے نہیں، بلکہ خود ان کے اپنے خلاف پڑتی ہیں، جبکہ ان کو اس کا احساس نہیں ہوتا۔
(ف1) اکابر نے ہمیشہ مخالفت کی ہے کیونکہ ان کی کبر پسندی اور غرور کو ایمان کی سادگی اور مسکنت سے کوئی تناسب نہیں ، باوجود اس کے کہ اسلام زندگی ہے اور نور ہے پھر بھی قوم کے بڑے بڑے لوگ ابتداء محروم ہی رہے ۔ مکہ کے بڑے بڑے سرداروں نے اسلام کی مخالفت میں کیا کیا نہیں کیا ، آپ کے کام میں کیا کیا مشکلات پیدا نہیں کیں ، مگر بالآخر ان کو معلوم ہوگیا ، کہ ہماری تمام کوششیں رائیگاں گئی ہیں ، اس آیت میں اسی حقیقت کی جانب اشارہ ہے ۔ معیار رسالت : انکار کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ ظاہری عظمت اور برتری کو معیار قرار دیتے تھے ہر فضیلت روحانی کا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ ثبوت کا استحقاق ہمیں حاصل ہے ، کیونکہ ہمارے پاس سرداری ہے ، دولت ہے دنیوی عزت کے سامان ہیں ‘ وجاہت ہے قوم میں نام ہے ، اور وہ سب کچھ حاصل ہے ، جو ایک معزز انسان کے لئے ضروری ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم نہیں جانتے ، نبوت ورسالت کے لوازم کیا کیا ہیں ۔ نبوت ایک بخشش ہے ، ایک موہبت ہے جس کے لئے استعداد خاص کی ضرورت ہے ، جس سے تم سب محروم ہو ۔ ہمیں یہی منظور ہے کہ ایک یتیم بےنوا کو ساری کائنات کا سر پرست بنا دیں ، ایک ایسے شخص کو جو تمہاری نظروں میں بےمایہ اور مفلس ہے خزانوں اور ممالک کا مختار کردیں ، ہم یہی چاہتے ہیں ، کہ تمہارے غرور کو کچلا جائے اور محمد (ﷺ) کے اعزاز کو بلند کیا جائے ، کہو ، کیا اعتراض ہے ؟ حل لغات : أَكَابِرَ: بڑے بڑے لوگ ، لفظ عام ہے رؤساء الدار اور رؤساء علم دونوں شامل ہیں ۔