وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِم بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ
اور تمہارے لیے کون سی رکاوٹ ہے جس کی بنا پر تم اس جانور میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لے لیا گیا ہو؟ حالانکہ اس نے وہ چیزیں تمہیں تفصیل سے بتا دی ہیں جو اس نے تمہارے لیے (عام حالات میں) حرام قرار دی ہیں، البتہ جن کو کھانے پر تم بالکل مجبور ہی ہوجاؤ (تو ان حرام چیزوں کی بھی بقدر ضرورت اجازت ہوجاتی ہے) اور بہت سے لوگ کسی علم کی بنیاد پر نہیں (بلکہ صرف) اپنی خواہشات کی بنیاد پر دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں۔ بلا شبہ تمہارا رب حد سے گزرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔
(ف1) ایک اعتراض ذبیحہ پر یہ تھا کہ مسلمان خود مار کر کھا لیتے ہیں اور خدا کا مارا ہوا جانور نہیں کھاتے اس کی کیا وجہ ہے َ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ذبح کرنےمیں یہ راز مضمر ہے کہ اس سے توحید کا اعلان ہوتا ہے ، اللہ سے تعلق پیدا ہوتا ہے ، اور مسلمان کو یہ انتباہ ہوتا ہے ، کہ کسی وقت اللہ کو فراموش نہ کرے ، ﴿إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ﴾سے غرض یہ ہے کہ اگر کھانے کو کچھ نہ ملے اور زندگی خطرے میں ہو تو حرام بھی کھالے ، زندگی بہرحال زیادہ عزیز ہے ، اور اصل میں حلت وحرمت کی بحث محض بقاء حیات کے لئے ہے۔ وہ چیزیں جو حیات انسان کے لئے مفید ہیں ، شریعت نے ان کے کھانے میں کوئی پابندی نہیں رکھی اور وہ جو مضر ہیں ، انہیں حرام قرار دیا ہے ، حل لغات : اضْطُرِرْتُمْ: اضطرار کے معنی ہیں ‘ بےاختیاری ، اور بیچارہ ہونے اور بیچارہ کرنے کے ۔