وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ
اور (جس طرح یہ لوگ ہمارے نبی سے دشمنی کر رہے ہیں) اسی طرح ہم نے ہر (پچھلے) نبی کے لیے کوئی نہ کوئی دشمن پیدا کیا تھا، یعنی انسانوں اور جنات میں سے شیطان قسم کے لوگ، جو دھوکا دینے کی خاطر ایک دوسرے کو بڑی چکنی چپڑی باتیں سکھاتے رہتے تھے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرسکتے۔ (٥١) لہذا ان کو اپنی افترا پردازیوں میں پڑا رہنے دو۔
(ف ٢) شیطان کی دوقسمیں ہیں ، ایک تو وہ ہے جو نظروں سے اوجھل ہے دل میں وسوسہ انداز ہوتا ہے اور حواس باطنی پر چھا جاتا ہے اور ایک وہ ہے جو چلتا پھرتا محسوس ہوتا ہے ، یہ انسانوں میں سے بدترین نوع کے لوگ ہیں ، ان کا کام یہ ہے کہ برائیوں کو سنوارکر پیش کریں ، اور گناہ کی باتوں کو ملمع اور فریب کا جامہ پہنائیں تاکہ عوام نہ سمجھ سکیں ، اور پرہیزگاری کی نعمت سے محروم رہ جائیں ۔