لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ
نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں، اور وہ تمام نگاہوں کو پالیتا ہے۔ اس کی ذات اتنی ہی لطیف ہے، اور وہ اتنا ہی باخبر ہے۔ (٤١)
﴿لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ﴾: (ف1) اسلام نے جو اللہ تعالیٰ کا تخیل پیش کیا ہے وہ نہایت بلند ہے ، اس میں تجسم اور تشکل کو قطعا دخل نہیں ، وہ کہتا ہے آنکھیں جن کی پہنچ ادیات میں سے سب سے زیادہ وسیع ہے اور ہمہ گیر ہے ، اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتیں ، ان میں وہ روشنی اور بینائی ہرگز موجود نہیں ہے ، جس سے رب السموت کا احاطہ کیا جا سکے ، مگر بایں عظمت وعلو ، وہ ہمارے حالات سے پوری طرح آگاہ ہے ، وہ باوجود مادیات سے الگ اور متعال ہونے کے ہماری باریک سے باریک حاجات کو بھی جانتا ہے ، اس لئے کہ لطیف ہے اس آیت سے قیامت میں عدم رؤیت کا ثبوت نہیں ملتا ، قرآن حکیم میں نص موجود ہے ، ﴿وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ﴾یعنی کچھ خوش بخت چہرے ایسے بھی ہوں گے جو اس کے دیدار سے محروم نہیں رہیں گے ، مقصد یہ نہیں کہ اس وقت ہم اللہ تعالیٰ کو ویسے ہی دیکھیں گے جیسے دنیا کی عام چیزوں کو دیکھتے ہیں بلکہ رؤیت سے مقصود یہ ہے کہ ہم وہاں عجیب ناقابل بیان مسرت حضور ی محسوس کریں گے اور اس کی جلوہ آرائیوں سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائیں گے یہ تقرب و حضور کا انتہائی درجہ اور مقام ہے جو مسلمانوں کو حاصل ہوگا ۔