سورة الانعام - آیت 73

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ وَيَوْمَ يَقُولُ كُن فَيَكُونُ ۚ قَوْلُهُ الْحَقُّ ۚ وَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ ۚ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور وہی ذات ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے، (٢٦) اور جس دن وہ (روز قیامت سے) کہے گا کہ : تو ہوجا تو وہ ہوجائے گا۔ اس کا قول برحق ہے۔ اور جس دن صورت پھونکا جائے گا، اس دن بادشاہی اسی کی ہوگی (٢٧) وہ غائب و حاضر ہر چیز کو جاننے والا ہے، اور وہی بڑی حکمت والا، پوری طرح باخبر ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) اسلامی تخیل اللہ تعالیٰ کے باب میں یہ ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ، اسے اسباب وذرائع کی قطعا حاجت نہیں ، وہ جب چاہے ، دنیا کو مجرد مشیت کے فنا کے گھاٹ اتار دے ، اسی طرح اس میں یہ بھی قدرت ہے ، کہ کائنات کو ایک لمحہ کے اندر مہیا کر دے ، اسے صرف ارادہ کرنا ہے ، اس کے بعد شئے مراد کا خلعت وجود اختیار کرلینا ضروری ہے ، اس آیت میں یہ بھی بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک وقت لائے گا جب تمام انسانوں کو پھر سے زندہ ہونے کا حکم دے گا ۔ کن کہنے سے مقصود یہ ہے کہ اس کے ارادہ اور فعل میں کوئی تخلف نہیں ہوتا ، یوں کہہ لیجئے ، اس نے کہا اور چیز موجود ہوگئی ، ورنہ وہ لفظ کن کا محتاج نہیں ، اور لفظ کن میں پیدا کرنے کی تاثیر ہے غرض اس کی قوت کاملہ اور مطلقہ کا اظہار ہے ۔ حل لغات : استھوتہ : استھوا کے معنی سرگشتہ کرنے کے ہیں یعنی اس کا شیاطین نے سرگشتہ کردیا ہو ۔ حیران : بمعنی سرگشتہ ، پریشان ، سرسیمہ شوریدہ سر ۔ (ف ١) نفخ صور کی تفصیلی بحث گذر چکی ہے اجمالا بحث یہ ہے ، کہ : ١۔ قرآن میں مختلف ناموں سے اس تخیل کا وجود پایا جاتا ہے ، اس لئے لفظ صور کی تاویل درست نہیں ۔ ٢۔ احادیث میں صراحت سے نرسنگا اور فرشتہ کا ذکر ہے ۔ اور اس میں کوئی مضائقہ اور استحالہ بھی نہیں ، ممکن ہے ، یہ محض اطلاع اور انتباہ ہو یعنی بالا استقلال فناء حیات کی تاثیر اس میں موجود نہ ہو ، بلکہ مقصود یہ ہو کہ وقت مقرر آپہنچا ہے ۔ اور یہ بھی محال نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں خاص تاثیر ودیعت کر رکھی ہو ، ہم علم الاصوات کی تمام وسعتوں سے آگاہ نہیں ، جب بھی یہ جانتے ہیں کہ آواز میں دس کی قوتیں ہو سکتی ہیں ۔