وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ وَذَكِّرْ بِهِ أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَا ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا ۖ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ
اور چھوڑ دو ان لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے (٢٥) اور جن کو دنیوی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا ہے، اور اس (قرآن) کے ذریعے (لوگوں کو) نصیحت کرتے رہو، تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص اپنے اعمال کے سبب اس طرح گرفتار ہوجائے کہ اللہ ( کے عذاب) سے بچانے کے لیے اللہ کو چھوڑ کر نہ کوئی اس کا یارومددگار بن سکے نہ سفارشی، اور اگر وہ (اپنی رہائی کے لیے) ہر طرح کا فدیہ بھی پیش کرنا چاہے تو اس سے وہ قبول نہ کیا جائے۔ (چنانچہ) یہی (دین کو کھیل تماشا بنانے والے) وہ لوگ ہیں جو اپنے کیے کی بدولت گرفتار ہوگئے ہیں۔ چونکہ انہوں نے کفر اپنا رکھا تھا، اس لیے ان کے لیے کھولتے ہوئے پانی کا مشروب اور ایک دکھ دینے والا عذاب (تیار) ہے۔
دین کو کھیل نہ سمجھو ! (ف ٣) غرض یہ ہے کہ دین کا احترام ضروری ہے یہود ونصاری کی طرح نہ ہوجاؤ جن کے دلوں میں مذہب ایک غیر ضروری مشغلہ کی حیثیت سے زیادہ نہیں ۔ (آیت) ” ولا شفیع “۔ سے شفاعت مطلقہ کی تردید مقصود ہے ‘ یعنی غیر مشروط شفاعت ، اہل باطل کا خیال تھا کہ چونکہ ہم انبیاء کی جانب منسوب ہیں ، اور اس انتساب پر نازاں ہیں اس لئے شفاعت قطعی ہوگی ، مکہ کے مشرک یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے بت ، ہمارے اولیاء اللہ پر دباؤ ڈال کر ہمیں بخشوائیں گے قرآن حکیم نے اس نوع کی سفارش کو ممنوع اور ناجائز قرار دیا ، اور بالکل مایوسی کا اظہار کیا ہے ۔ حل لغات : الذکری : مصدر ہی معنوں میں استعمال ہوا ہے یعنی یاد آنے کے بعد نہ بیٹھو ، ان تبسل : مادہ بسل بمعنی روکنا ، محروم رکھنا ، حمیم : کھولتا ہوا پانی ۔