لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوا وَّآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوا وَّأَحْسَنُوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
جو لوگ ایمان لے آئے ہیں، اور نیکی پر کار بند رہے ہیں، انہوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیا ہے، اس کی وجہ سے ان پر کوئی گناہ نہیں ہے، (٦٣) بشرطیکہ وہ آئندہ ان گناہوں سے بچتے رہیں، اور ایمان رکھیں اور نیک عمل کرتے رہیں، پھر (جن چیزوں سے آئندہ روکا جائے ان سے) بچا کریں، اور ایمان پر قائم رہیں اور اس کے بعد بھی تقوی اور احسان کو اپنائیں۔ (٦٤) اللہ احسان پر عمل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
بے علم معذور ہیں : (ف ٢) تکالیف شرعیہ کا اطلاق علم کے بعد ہوتا ہے ایک شخص جو یہ نہیں جانتا کہ اسلامی تعلیمات کیا ہیں ، وہ مکلف بھی نہیں کہ اسلامی احکام کو بجا لائے ۔ جب حرمت شراب کی آیات نازل ہوئیں ، تو صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین کو بالطبع ان لوگوں کو خیال آیا ، جو شراب کی مضرت سے آگاہ نہیں ‘ یا جو ان آیات کے نزول سے پہلے فوت ہوچکے ہیں اور شراب کے عادی تھے ، اس لئے پوچھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کا کیا حشر ہوگا ، کیا وہ بھی ماخوذ ہوں گے ؟ جوابا یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر مے نوشی نے ان کے اخلاق پر برا اثر نہیں ڈالا ، اور وہ پاکباز رہے ہیں ، تو عند اللہ معذور ہیں ، بعض ملاحدہ نے آیت کا مفہوم یہ سمجھا ہے ، کہ اس میں خواص اور اتقیاء کو مئے نوشی کی اجازت دی ہے ، یعنی اگر کوئی شخص شراب پی کر محتاط رہے ، اور صلاح وتقوے کو ہاتھ سے نہ دے تو اس کے لئے اجازت ہے ، مگر یہ بوجوہ غلط ہے ۔ ١۔ اسلام جس نظام تقوی کو پیش کرتا ہے شراب بجائے خود اس میں منافی ہے ، اس غرض کے جو ملحوظ و متعین ہے ، ٢۔ اسلام میں خواص وعوام کی قطعا تقسیم موجود نہیں ، تمام مسلمان تکالیف شرعیہ کے مکلف ہیں ۔ ٣۔ احادیث میں بصراحت تام شراب کا استعمال بہر طور ناجائز قرار دیا گیا ہے ، حتی کہ دوا کے لئے بھی آپ نے فرمایا ، کہ حرام میں شفا نہیں ، ٤۔ دراصل شبہ آیت کے طرز بیان سے پیدا ہوتا ہے لیس کا استعمال ما کے موقع پر اور پھر اذا حرف شرط جو استقبال کے لئے مختص ہے ، اس کا ذکر ‘ یہ قرائن ہیں جن سے اہل زندقہ کو الحاد کے لئے راہ نظر آتی ہے ۔ اس کا ایک جواب تو وہ ہے جو علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ نے دیا ہے ‘ کہ آیت مستقبل کے معنی کو بھی شامل یعنی ، وہ لوگ جو حرمت شراب کے حکم سے آگاہ نہیں ، وہ اس وقت تک معذور ہیں جب تک کہ انہیں اس کا علم نہیں ہوجاتا ، صحیح جواب یہ ہے کہ سرے سے اس آیت میں شراب کا ذکر ہی موجود نہیں ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ نیک اور صالح لوگ جو کچھ بھی کھائیں پیئیں ، صلاح وتقوی کو ملحوظ رکھیں جس کا ادنی درجہ یہ ہے کہ حلال وحرام کی تفریق کو سمجھیں ، تو ان کے لئے پر تکلف اور پرتنعم ملعومات جائز اور درست ہیں یعنی شراب کی حرمت جذبہ رہبانیت کے ماتحت نہیں ، بلکہ اس لئے کہ یہ تقوی واحسان کے خلاف ہے ۔ حل لغات : الصید : شکار ۔ النعم : چہار پایہ ، قتل گائے بکری اونٹ کے ، یعنی وہ جانور جو عربوں کے لئے آسائش کا سبب تھے ، السیارۃ : مسافر ، چلنے پھرنے والے لوگ ، مادہ سیر ۔