تَرَىٰ كَثِيرًا مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ
تم ان میں سے بہت سوں کو دیکھتے ہو کہ انہوں نے (بت پرست) کافروں کو اپنا دوست بنایا ہوا ہے (٥٥) یقینا جو کچھ انہوں نے اپنے حق میں اپنے آگے بھیج رکھا ہے وہ بہت برا ہے، کیونکہ (ان کی وجہ سے) اللہ ان سے ناراض ہوگیا ہے، اور وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے۔
(ف ٣) ان دو آیتوں میں بیان فرمایا ہے کہ یہودی باوصف اہل کتاب ہونے کے اور بہت سی باتوں میں مسلمانوں کے ساتھ اشتراک رکھنے کے کفار کے زیادہ دوست ہیں ، حالانکہ ان کے تعلقات مسلمانوں سے کہیں مضبوط ہونے چاہئیں ۔ بات یہ ہے کہ یہود کو اسلام کی دشمنی نے اندھا کر رکھا تھا وہ بغض وحسد سے برے اور بھلے میں کوئی تمیز نہ کرسکتے تھے اور فسق وفجور کی وجہ سے انکی مذہبی حس مردہ ہوچکی تھی یہی وجہ ہے کہ وہ خدا کی ناراضگی اور عذاب مخلد کے مستحق ٹھہرے ۔ حل لغات : سوآء السبیل : صرط مستقیم ۔ جادہ معتدل ۔ سیدھی اور آسان راہ ، یتناھون : مادہ تناھی ، رکنا ۔ باز رہنا ۔