يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
اے رسول ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی تبلیغ کرو۔ اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو ( اس کا مطلب یہ ہوگا کہ) تم نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا۔ اور اللہ تمہیں لوگوں ( کی سازشوں) سے بچائے گا۔ یقین رکھو کہ اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
منصب دعوت اور وعدہ عصمت : (ف1) نبوت کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص انسانیت کے فراز اعلی پر جلوہ گر ہے اور اس کا دل مہبط انوار الہی ہے اسے حکم ہے کہ اس روشنی کو جو تمہارے قلب پر تو فگن ہے عام کر دے اور دیدہ بینا کو موقع دے کہ وہ اس نور خالص سے بقدر تاب وتواں استفادہ کریں ۔ اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے حضور (ﷺ) کو ہدایت کی گئی ہے کہ خدا کے احکام ومعارف بندوں تک بےکم وکاست پہنچا دیں ورنہ منصب دعوت ورسالت کے خلاف ہوگا ۔ آیت کا مقصد یہ نہیں کہ حضور (ﷺ) کسی بخل سے کام لیں گے اور فیوض وانوار سے محروم رکھیں گے کیونکہ آپ (ﷺ) کی نسبت بتصریح مذکور ہے ۔ ﴿وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ﴾ یعنی آپ (ﷺ) خزینہ غیب تقسیم کرنے میں ممسک نہیں ہیں ۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ آپ (ﷺ) کے متعلق اخفاء واسرار کا عقیدہ رکھنا عہدہ رسالت سے ناواقفیت کی دلیل ہے یعنی آپ (ﷺ) ہمہ فیض وافادہ ہیں یہ محض غلط ہے کہ آپ نے چند چیزیں عوام سے پوشیدہ رکھی ہیں اور وہ سینہ بسینہ منتقل ہوتی چلی آرہی ہیں اسلام میں کوئی راز داری نہیں وہ صاف واضح روشن طریق عمل کا نام ہے ۔ ﴿وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ﴾میں عصمت ومحفوظیت کا وعدہ ہے یعنی آپ (ﷺ) اور آپ (ﷺ) کی تعلیمات دشمنوں کی ہر سیہ کاری سے محفوظ ہیں ۔ قریش مکہ نے جب چاہا کہ حضور (ﷺ) کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے معاذ اللہ ختم کردیا جائے تو آپ (ﷺ) وعدہ عصمت کی بنا پر ان کی آنکھوں میں دھول ڈالتے ہوئے صاف نکل گئے ۔ آپ (ﷺ) کی تعلیمات بھی باوجود ہر سعی الحاد کے ویسی کی ویسی تابندہ وروشن ہیں ۔