وَقَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِم بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ
اور ہم نے ان (پیغمبروں) کے بعد عیسیٰ ابن مریم کو اپنے سے پہلی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والا بنا کر بھیجا، اور ہم نے ان کو انجیل عطا کی جس میں ہدایت تھی اور نور تھا، اور جو اپنے سے پہلی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والی اور متقیوں کے لیے سراپا ہدایت و نصیحت بن کر آئی تھی۔
(ف ١) مسیح (علیہ السلام) کی تعلیمات تورات سے قدرے مختلف ہیں اور اس کی وجہ یہ نہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے غرض ومقصد میں اختلاف وتضاد ہے بلکہ یہ ہے کہ حالات وواقعات کے ماتحت تعلیمات کا بظاہر فروع میں مختلف ہونا لابدی اور ضروری ہے مگر اصول واساس میں پوری وحدت ویکسانی ہوتی ہے جس طرح یہ ضروری ہے کہ قدرت کے دوسرے مظاہر مادیہ میں وحدت یکجہتی ہو اسی طرح شرائع اور ادعیان بھی باوجود تنوع کے ایک محسوس وحدت اپنے اندر پنہاں رکھتے ہیں سب کی غرض وغایت یہ ہوتی ہے کہ انسان کو روح وجسم سمیت ارتقاء کی سب سے اونچی سیڑھی پر چڑھایا جائے اور اس میں حالات وظروف کے ماتھت اس نوع کی استعداد پیدا کی جائے کہ وہ دنیا و عقبی کی سعادتوں کا حامل ثابت ہو یہی وجہ ہے کہ ہر لاحق سابق کی تائید کرتا ہے اور ہر پچھلا پہلے کا مصدق قرار پاتا ہے ۔ (اس آیت میں اسی حقیقت ثابتیہ کی طرف اشارہ ہے کہ تورات وانجیل دونوں کتابیں اللہ کی ہیں اور دونوں پر ایمان لانا اور دونوں کو خدا کی طرف سے ماننا ضروری ہے ۔