إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِن كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ
بیشک ہم نے تورات نازل کی تھی جس میں ہدایت تھی اور نور تھا۔ تمام نبی جو اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے، اسی کے مطابق یہودیوں کے معاملات کا فیصلہ کرتے تھے، اور تمام اللہ والے اور علماء بھی (اسی پر عمل کرتے رہے) کیونکہ ان کو اللہ کی کتاب کا محافظ بنایا گیا تھا، اور وہ اس کے گواہ تھے۔ لہذا (اے یہودیو) تم لوگوں سے نہ ڈرو، اور مجھ سے ڈرو، اور تھوڑی سی قیمت لینے کی کا طر میری آیتوں کا سودا نہ کیا کرو۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ کافر ہیں۔
(ف ١) یعنی تورات میں ہدایت ونور کا کافی سامان ہے ، تمام گزشتہ انبیاء کا دستور العمل تورات ہی رہی ہے ، احبار وعلماء بھی مکلف تھے کہ تورات کو یاد رکھیں اور بلالومۃ لائم اس کے موافق فیصلہ کریں اور دنیوی اغراض کے لئے خدا کے احکام کو بیچ نہ دیں ۔ آیت کا یہ مقصد نہیں کہ تورات مسلمانوں کے لئے حجت ہے یا اب بھی یہودی تو رات ہی کو ماننے کے مکلف ہیں ، کیونکہ آفتاب ہدایت کے بعد ستاروں کی روشنی ماند پڑجاتی ہے اور دن نکل آنے کے بعد کوئی گھروں میں چراغ نہیں جلاتا ، غرض صرف یہ ہے کہ مسلمات میں تحریف بدترین بدیانتی ہے جس کا یہودی ارتکاب کرتے ہیں ۔ (آیت) ” بما انزل اللہ “ سے مراد صرف قرآن نہیں بلکہ اسوہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ہے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت قرآن حکیم کی رو سے لازم وواجب ہے (آیت) ” ما اتکم ال رسول فخذوہ وما نھکم عنہ فانتھوا “۔