قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا أَبَدًا مَّا دَامُوا فِيهَا ۖ فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ
وہ کہنے لگے : اے موسیٰ ! جب تک وہ لوگ اس (ملک) میں موجود ہیں، ہم ہرگز ہرگز اس میں قدم نہیں رکھیں گے (اگر ان سے لڑنا ہے تو) تو بس تم اور تمہارا رب چلے جاؤ، اور ان سے لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔
(ف ١) بدبختی اور شقاوت کی یہ انتہائی مثال ہے کہ قوم اس رکھائی سے خدا کے پیغمبر (علیہ السلام) کو جواب دیتی ہے ان کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ خدا اپنے فرستادوں کو ذلت ورسوائی سے کبھی دوچار نہیں ہونے دیتا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کی دعوت وشمولیت کے معنی یہ تھے کہ بنی اسرائیل قید غلامی سے نکل کر اوج حکومت پر جلوہ آراء ہوجائیں ، مگر وہ لوگ جو ذلت وحقارت کی تمام منزلیں طے کرچکے ہوں کہاں اس درجہ فریس ودانا ہو سکتے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ غلامی جرات وجسارت ہی کو غارت نہیں کرتی عقل وہوش کو بھی مٹادیتی ہے ۔