سورة المآئدہ - آیت 4

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کون سی چیزیں حلال ہیں؟ کہہ دو کہ : تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں۔ اور جن شکاری جانوروں کو تم نے اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سکھا سکھا کر (شکار کے لیے) سدھا لیا ہو، وہ جس جانور کو (شکار کر کے) تمہارے لیے روک رکھیں، اس میں سے تم کھا سکتے ہو، اور اس پر اللہ کا نام لیا کرو، (٨) اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ جلد حساب لینے والا ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

شکار : (ف ٢) مقصد یہ ہے ہر پاکیزہ چیز جو ذوق سلیم پر گراں نہ گزرے اور اخلاقی وبدنی مضرتوں سے خالی ہو ۔ حلال ہے ، (آیت) ” مما علمکم اللہ “ کہہ کر شکار کی فضیلت بیان کی ہے ۔ (آیت) ” واتقوا اللہ “ سے مراد یہ ہے کہ شکار بلا ضرورت مستحسن نہیں کیونکہ اس سے قساوت قلبی کے پیدا ہونے کا اندیشہ نہیں کیونکہ اس سے قساوت قلبی کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے ، یوں حاجت وضرورت کے مطابق بہترین ورزش ہے جس سے حوصلہ وجرات کے جذبات پیدا ہوتے ہیں صحابہ (رض) عنہم اجمعین میں متعدد لوگ شکار سے ذوق رکھتے تھے ، عدی بن حاتم (رض) کو جو ایک مشہور شکاری ہیں ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں :۔ ” جب کتے کو شکار کے لئے دوڑاؤ تو بسم اللہ کہہ لو ، اگر وہ صحیح سلامت تم تک شکار لے آئے تو ذبح کرلو اگر مجروح ہو تو دیکھ لو کہ راستے میں اس نے اس میں سے کچھ کھایا تو نہیں ، اگر کھاچکاہو تو پھر تم نہ کھاؤ اور اگر نہ کھایا ہو تو وہ تمہارے لئے حلال ہے ، بلاخرخشہ کھاؤ ۔ “ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ضرورتا کتوں کو رکھنا جائز ہے ۔ حل لغات : مخمصۃ : بھوک ۔ الجوارح : ہر شکاری جانور ۔