بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا
بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا، اور اللہ سب پر غالب رہنے والا اور (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے
مسیح (علیہ السلام) غیر مصلوب ہیں : (ف ١) قرآن حکیم مکمل صحیفہ آسمانی ہے اس میں جس طرح عقائد وعمل کی گتھیوں کو سلجھایا گیا ہے اسی طرح صدیوں کے شبہات وظنون کو فیصلہ کن صورت میں پیش کیا گیا ہے ، یہ وہ مصحف روشن ہے جس کی برق افگن تجلیاں باطن ومغر تک نفوذ کر جاتی ہیں اور کوئی چیز ظلمت وتاریکی میں نہیں رہتی ۔ سات سوسال سے یہ متفقہ عقیدہ چلا آرہا تھا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) مصلوب ہوگئے ہیں ، یہودی بھی فخر وغرور سے کہتے تھے (آیت) ” انا قتلنا المسیح “۔ اور عیسائی بھی معترف تھے کہ وہ دار پر کھینچے گئے ہیں ۔ قرآن اعظم نازل ہوا تو اس نے کہا ، یہ افسانہ ہی غلط ہے ، بات یہ ہے کہ یہودی سپاہی جب مسیح (علیہ السلام) کو کشاں کشاں صلیب تک لے گئے تو غیرت خداوندی جوش میں آگئی اور مسیح (علیہ السلام) کو آسمان پر زندہ اٹھالیا گیا ، سپاہی جو مسیح (علیہ السلام) کو سزا دینے پر متعین تھے حیران ہونے پھر تدبیریں یہ کی کہ کسی دوسرے آدمی کو سولی دے کر مشہور کردیا کہ ہم نے مسیح (علیہ السلام) کو صلیب پر چڑھا دیا ہے مقصد یہ تھا کہ ہمارے خلاف کوئی محکمانہ کاروائی نہ کی جائے ۔ صدیاں گزر گئیں اور یہ واقعہ اسی طرح تسلیم کیا جاتا رہا ، حتی کہ عیسائیوں نے مسیح (علیہ السلام) کی موت پر کفارے کی بنیادیں رکھیں اور یہودی اپنی اس کور باطنی پر نازاں رہے قرآن حکیم نے (آیت) ” ولکن شبہ لھم “۔ کہہ کر واقعہ کی حیثیت کو ہی بدل دیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ کفارہ کی بنیادیں ہل گئیں اور یہودں کا فخر وغرور بھی خاک میں مل گیا ۔ یہ کہنا کہ مسیح صلیب پر لٹکائے تو گئے تھے ، مرے نہیں قرآن وادب کی مخالفت کرنا ہے ۔ (آیت) ” ماقتلوہ وما صلبوہ “۔ کے صاف معنی یہ ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) غیر مقتول ہیں ۔ کیونکر افعال میں ہمیشہ ابتدا و آغاز کا اعتبار ہے اور نفی کی صورت میں سب سے پہلے اس کی زد ابتداہی پر پڑتی ہے مثلا اکل کے معنی ہیں کھانا شروع کیا اور کھایا ، شرب کا مطلب ہے پانی پینا شروع کیا اور پیا ، جب یہ کہیں گے کہ ما اکل زید ۔ تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ زید نے سرے سے کھایا ہی نہیں اور جب یہ کہیں گے کہ ماشرب عمرو ۔ تو اس کا مطلب بھی یہی ہوگا کہ عمرو نے فعل کا آغاز ہی نہیں کیا ۔ پس (آیت) ” وما قتلوہ وما صلوہ “ کے معنی یہ ہوں گے کہ مسیح (علیہ السلام) کو انہوں نے سولی پر چڑھایا ہی نہیں اور نہ ہی قتل کیا ہے ۔ (آیت) ” بل رفعہ اللہ “ سے مراد یہ ہے کہ خدا نے اپنے ہاں مسیح (علیہ السلام) کو بلا لیا یعنی آسمان جو خدا کی تدبیرات کا مرکز ودفتر ہے (آیت) ” یدبر الامر من السمآئ“۔ مسیح (علیہ السلام) کا عارضی مستقر ٹھہرا ۔