وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ ۖ كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ۖ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
اور (پھر جب ایسا ہوا تھا کہ صحراسینا کی بے آب و گیاہ سرزمین میں دھوپ کی شدت اور غزا کے نہ ملنے سے تم ہلاک ہوجانے والے تھے تو) ہم نے تمہارے سروں پر ابر کا سایہ پھیلادیا اور من اور سلوی کی غذا فراہم کردی (تم سے کہا گیا :) خدا نے تمہاری غذا کے لیے جو اچھی چیزیں مہیا کردی ہیں انہیں بفراغت کھاؤ اور کسی طرح کی تنگی محسوس نہ کرو (لیکن اس پر بھی تم اپنی بدعملیوں سے باز نہ آئے۔ غور کرو) تم نے (اپنی ناشکریوں سے) ہمارا کیا بگاڑا؟ خود اپنا ہی نقصان کرتے رہے
(ف2) سب سے بڑا فضل جو بنی اسرائیل پر ہوا ، وہ فکر معاش سے بےنیازی تھی ، تاکہ وہ پورے انہماک کے ساتھ دینی کاموں میں مشغول ہو سکیں ، ان پر من وسلوی کی نعمتیں نازل کی گئیں ، انہیں عام تکالیف سے بھی بچایا گیا ، جنگل کی دھوپ سے بچنے کے لئے ابر کا سایہ مہیا کیا گیا ، تاکہ انہیں کوئی شکایت باقی نہ رہے اور وہ پورے وقت ، قوت اور استعداد کے ساتھ اللہ کے مشن کو پورا کریں لیکن وہ انعامات الہیہ سے صحیح صحیح استفادہ نہ کرسکے ، شہریت کے تین اصول : بنی اسرائیل کو جب امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) کی روایت کے مطابق اریحاء میں داخلے کی اجازت مل گئی ، جو عمالقہ کا ایک مشہور شہر تھا تو ان پر چند قیود عائد کردی گئیں جو تمدن صحیح کی جان ہیں اور شہری زندگی کے لوازم میں ہے ، ورنہ خطرہ تھا کہ وہ شہریت وتمدن کی تعیش وفجور کا ہم معنی نہ سمجھ لیں ، وہ تین چیزیں قرآن کی الفاظ میں یہ ہیں : ۔ (ا) اللہ سے بہرحال تعلق قائم رہے ۔ اس کا آستانہ جلال ہمارے سجدہ ہائے خلوص سے ہمیشہ معمور رہے ۔ (ب) ہم اپنے گناہوں کا جائزہ لیتے رہیں ، تمدن وشہریت کو مذہب کے کناروں میں محصور رکھیں اور ہر وقت اللہ کی رحمت ومغفرت کے جویاں رہیں ۔ (ج) احسان اور جذبہ اصلاح وتکمیل پیش نظر رہے ۔ ان سہ گانہ اصولوں کو قرآن حمید نے اپنی معجزانہ زبان میں اس طرح ادا فرمایا ہے﴿وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا ﴾کے شہر میں عجزونیاز مندی لئے ہوئے رہنا ﴿وَقُولُوا حِطَّةٌ ﴾اور ہر آن بخشش مانگتے رہنا ، اور جان رکھو کہ وہ لوگ جو محسن ہیں ان کے درجے ہم اور بڑھائیں گے ، ظاہر ہے یہ باتیں نہایت قیمتی نصائح کی حیثیت رکھتی تھیں ، مگر بنی اسرائیل نے تغافل سے کام لیا ، شہری فسق و فجور میں مبتلا ہوگئے نتیجہ یہ ہوا کہ عذاب الہی نے آگھیرا ۔ بعض آثار میں آتا ہے کہ عذاب طاعون کی شکل میں آیا مسلم میں حدیث ہے کہ حضور (ﷺ) نے فرمایا ۔ طاعون بقیہ قوموں کا عذاب ہے جس کسی جگہ آجائے تو تم بھاگو نہیں اور نہ مطعونہ شہر میں جاؤ ۔ حل لغات : ظَلَّلْنَا : ماضی معلوم ۔ مادہ الضل ، سایہ ۔ الْمَنَّ: ترنجبین (جمہور مفسرین) ایک قسم کا میٹھا گوند (قاموس) شہد ۔ کوئی میٹھی چیز ۔ ابن عباس (رض) کی رائے بالکل صاف ہے وہ کہتے ہیں من : مصدر ہے تمام ان چیزوں کو شامل ہے جو بلاتعب وکسب حاصل ہوجائیں ، بخاری ومسلم میں حدیث ہے (أَنَّ الْكَمْأَةَ مِنَ الْمَنِّ ) جس سے اس عموم کی توضیح ہوجاتی ہے ۔ سَلْوَى : بٹیریں (جمہور مفسرین) شہد (علامہ جوہری) بٹیرایک ایسا پرندہ (ابن عطیہ) ایک طرح کا پرندہ (ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ) صحیح چیز یہ ہے کہ یہ بھی من کی طرح عام المعنی ہے ، ہر وہ شے موزون جس کے کھانے سے تسکین وتسلی حاصل ہو (راغب) ۔