وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا
اور (دیکھو) اللہ اپنی کتاب میں تمہارے لیے یہ حکم نازل کرچکا ہے کہ جب تم دیکھو اور سنو خدا کی آیتوں کے ساتھ کفر کیا جا رہا ہے (یعنی انہیں سرکشی اور شرارت سے جھٹلایا جا رہا ہے) اور ان کی ہنسی اڑائی جا رہی ہے تو (تم اس مجلس سے اٹھ جاؤ اور) جب تک (اس طرح کی باتیں چھوڑ کر) کسی دوسری بات میں لوگ نہ لگ جائیں، ان کے پاس نہ بیٹھو۔ اگر بیٹھا کروگے تو تم بھی انہی جیسے ہوجاؤگے۔ (یاد رکھو) خدا منافقوں کو (جو ایسی باتوں میں شریک ہوتے ہیں) اور منکرین حق کو (جو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں) سب کو جہنم میں اکٹھا کردینے والا ہے
(ف ٢) نزول قرآن کے وقت کفر ونفاق کے جمگھٹے ہوتے ، لوگ چھوٹے چھوٹے گرہوں میں بٹ بٹ کر مذاق واستہزاء کی محفلیں جماتے اور ان میں پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اللہ کی آیات پر پھبتیاں سوجھتیں مقصد یہ ہوتا کہ مقصدیہ ہوتا کہ عام مسلمانوں کے دلوں میں قرآن اور صاحب قرآن کے متعلق کوئی عقیدت باقی نہ رہے ۔ اور ان کے جذبہ حمیت وعصبیت کو ٹھیس لگائی جائے ۔ اس آیت میں بتایا ہے کہ جب اس قسم کے مواقع ہوں تو تم بھٹک جاؤ اور شرک اختیار نہ کرو ‘ ورنہ تم بھی ایسے ہی ہوجاؤ گے ۔ قاعدہ ہے جب کثرت سے کسی عقیدے کے متعلق اعتراضات وملامتیں سنی جائیں تو دل میں اس کے لئے کوئی وقعت نہیں رہتی اور یہ مداہنت آہستہ آہستہ ارتداد تک پہنچا کے رہتی ہے ۔ اس لئے عوام کے لئے احتراز ضروری ہے کہ جو چپکے بیٹھے رہتے ہیں ، اور مدافعت پر قادر نہیں ہوتے ، مگر وہ جو صاحب علم وحمیت ہیں اور ان کے نفاق وکفر کا دندان شکن جواب دے سکتے ہیں اور دیتے ہیں اس سے مستثنی ہیں کیونکہ اسلام تحقیق وتنقید سے نہیں گھبراتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ عوام کا ایمان محفوط رہے اور وہ نہ جانتے ہوئے سادگی سے بدعقیدگی کا شکار نہ ہوجائیں خواص کے لئے اجازت ہے کہ جہاں چاہیں جائیں اور اسلام کے معارف کی اشاعت کریں ۔ حل لغات : ثم کا تکرار تکرار فعل کے لئے ہے یعنی وہ لوگ جو شک وارتیاب کی وادیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں اور جن کے لئے کہیں ثبات وقرار نہیں ۔ اولیآء : دوست واحباب ۔