سورة النسآء - آیت 129

وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ ۚ وَإِن تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور تم اپنی طرف سے کتنے ہی خواہش مند ہو، لیکن یہ بات تمہاری طاقت سے باہر ہے کہ (ایک سے زیادہ) عورتوں میں (کامل طور پر) عدل کرسکو (کیونکہ دل کا قدرتی کھنچاؤ تمہارے بس کا نہیں۔ کسی طرف زیادہ کھنچے گا کسی طرف کم) پس ایسا نہ کرو کہ کسی ایک ہی کی طرف جھک پڑو، اور دوسری کو (اس طرح) چھور بیٹھو گویا "معلقہ" ہے (یعنی ایسی عورت ہے کہ نہ تو بیوہ اور طلاق دی ہوئی ہے کہ اپنا دوسرا انتظام کرے۔ نہ شوہر ہی اس کا حق ادا کرتا ہے کہ شوہر والی عورت کی طرح ہو۔ بیچ میں پڑی لٹک رہی ہے) اور (دیکھو) اگر تم (عورتوں کے معاملہ میں) درستی پر رہو، اور (بے انصافی سے) بچو، تو اللہ بخشنے والا، رحمت رکھنے والا ہے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

ممکن عدل : (ف1) آیت نشوز کے بعد تعدد ازدواج کا ذکر اس بات کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ یہ بجائے خود اختلاف اور عداوت کا باعث ہے ، اس لئے بجز مخصوص حالات کے کسی معمولی قوت ونفوذ کے آدمی کو تعدد وازدواج کی جرأت نہ ہونی چاہئے ۔ ﴿وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا﴾کے معنی یہ ہیں کہ حقیقی عدل ممکن نہیں جس کا تعلق جذبات سے ہے ، اس لئے کہ دنیا کا سب سے بڑا انسان جو اسوہ جمیل کے ساتھ نوازا گیا ہے ، ان الفاظ میں معذرت خواہ ہے ” هَذَا قَسْمِي فِيمَا أَمْلِكُ وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِمَا لَا أَمْلِكُ “۔ یعنی اے خدا جہاں میرے امکان میں ہے میں انصاف وعدل کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا مگر بعض منزلیں ایسی بھی ہیں جہاں مساوات قطعا ناممکن ہے ﴿فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ﴾کہہ کر امکانی حدود کی توضیح فرما دی ہے کہ ایک بیوی پرایسا نہ ریجھ جاؤ کہ دوسری بالکل ہی فراموش ہوجائے ، جن لوگوں نے تعدد ازدواج کی ممانعت اس آیت سے سمجھی ہے وہ غلطی پر ہیں آیت کا انداز بیان صاف طور پر اسے ایک حقیقت مسلمہ قرار دیتا ہے ۔