سورة النسآء - آیت 123

لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ ۗ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(مسلمانو ! نجات و سعادت) نہ تو تمہاری آرزوؤں پر (موقوف) ہے نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر۔ (وہ تو ایمان و عمل پر موقوف ہے) جو کوئی برائی کرے گا (خواہ کوئی ہو) ضروری ہے کہ اس کا بدلہ پائے، اور پھر اللہ کے سوا نہ تو اسے کوئی دوست ملے نہ مددگار

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

معیار نجات : (ف1) اسلام اور دیگر مذاہب کے تصور نجات میں بڑا فرق ہے ، سب مذاہب میں نجات کہتے ہیں ‘ روحانی مسرت اور عقبی کی کامیابی کو مگر اسلام کے نزدیک نجات ایک ارتقائی صورت فلاح کا نام ہے جس میں ولادت سے لے کر موت کی آغوش تک کا سامان آسائش پنہاں ہے وہ مذہب جو عقبی کی بخششوں کا تو ذمہ دار ہے ، مگر دنیا کی کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگاتا ‘ وہ غلط ہے ، اسلام کہتا ہے ، تمہاری نجات اسی دنیا سے شروع ہوتی ہے ، جو یہاں خوش ہے اس کے لئے آسمانوں میں بھی مسرت بےپایاں کے سامان موجود ہیں اور جو یہاں مطمئن نہیں اس میں قطعا استعداد نہیں کہ وہ اخری کی نعمت ہائے جادوانی سے بہرہ وافر حاسل کرسکے ۔ یہ وجہ ہے کہ اسلام جب نجات وکامیابی کی دعوت دیتا ہے تو صرف عقائد واعتراف پر زور نہیں دیتا ، بلکہ عمل صالح اس کے نزدیک بمنزلہ اساس واصل کے ہے ، اس لئے یہی ایک طریق ہے جو بالکل منطقی اور واضح ہے بغیر عمل صالح کے نجات ایسے ہی ناممکن ہے جیسے بغیر وسائل طبعی کے کامیابی ﴿لَيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ کہہ کر گویا ہر نوع کے غرور مذہبی ونسبی کا خاتمہ کردیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ خدا کی پیش گاہ عدل وانصاف میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں ۔ ﴿مَنْ يَعْمَلْ﴾ کی تعمیم کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام عورت ومرد میں کوئی امتیاز نہیں کرتا ، دونوں روحانیت وسلوک کے بلند ترین مدارج تک پہنچ سکتے ہیں اور دونوں اس قابل ہیں کہ زہد وعرفان کے انتہائی زینوں پر چڑھ جائیں دونوں کی روح پاک ہے ، دونوں میں یکساں استعداد عمل ہے ۔ حل لغات : مَحِيص: جائے فرار أَمَانِيِّ: جمع امنیہ ۔ خواہش دل ۔ آرزو ۔