سورة النسآء - آیت 111

وَمَن يَكْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا يَكْسِبُهُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جو کوئی (بدعملی کرکے) برائی کماتا ہے، تو وہ اپنی جان ہی کے لیے کماتا ہے ( اس کا جو کچھ بھی وبال ہوگا اسی کو پیش آئے گا) اور اللہ (سب کچھ) جاننے والا اور (اپنے احکام میں) حکمت رکھنے والا ہے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

گناہ کی حقیقت : (ف1) اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ گناہ چونکہ ذات باری سے متعلق نہیں اور اس کا نقصان صرف انسان کی اپنی ذات تک محدود ہے ‘ اس لئے تلافی ناممکن ہے ، یہ غلط عقیدہ ہے کہ گناہ بہرحال قابل تعزیر ہے اور خدا گناہوں کو بوجہ عادل ومنصف ہونے کے بخش نہیں سکتا ، اس طرح کے عقیدے سے ایک طرف تو کامل مایوسی پیدا ہوتی ہے اور دوسری جانب خدا کی توہین لازم آتی ہے ، کیونکہ وہ قادر ومختار کریم ہر وقت ہمارے گناہوں پر خط تنسیخ کھینچ سکتا ہے ، اس کا رحم وکرم ہر آن اسے بخشش وعفو پر آمادہ کرتا رہتا ہے۔ اس کی ادنی توجہ ہمارے دفتر عصیاں کو پاکیزہ کرسکتی ہے ، اس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ” قانون عدل وانصاف “ کی قوت اس سے زیادہ بڑی ہے ، حالانکہ عدل وانصاف کا مطلب محض خدا کا حکم وارادہ ہے جو کہہ دے وہ انصاف ہے اور جو کر دے وہ عدل ۔ کوئی قانون وضابطہ ایسا نہیں جسے وہ ماننے کے لئے مجبور ہو ۔ وہ بےنیاز ومتعال ہے ، وہ مقنن اور قانون ساز ہے اور کوئی بات ایسی نہیں جو اس کی ذات عالیہ سے بالا ہو ۔