سورة النسآء - آیت 100

وَمَن يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً ۚ وَمَن يَخْرُجْ مِن بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (دیکھو) جو کوئی اللہ کی راہ میں (انا گھر بار چھوڑ کر) ہجرت کرے گا، تو اسے خدا کی زمین بہت سے اقامت گاہیں ملیں گی، اور (ہر طرح کی) کشائش پائے گا (کہ معیشت کی نئی نئی راہیں اس کے سامنے کھل جائیں گی) اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرکے نکلے، اور پھر (راہ ہی میں) موت آجائے، تو اس کا اجر اللہ کے حضور ثابت ہوگیا (وہ اپنی نیت کے مطابق اپنی کوشش کا اجر ضرور پائے گا) اور اللہ تو (ہر حال میں) بخشنے والا، رحمت رکھنے والا ہے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) مراغم کا اشتقاق رغم سے ہے جس کے معنی خاک آلودہ کرنے کے ہیں ۔ علی رغم الف فلاں کا محاورہ اسی سے ماخوذ ہے ، یعنی مہاجرین جب ظلم واستبداد کے خلاف اجتجاج کرتے ہوئے ملک چھوڑ دیں گے تو انہیں ایسی جگہیں مل جائیں گی جو دشمنوں کی پائمالی اور تحقیر کا باعث بنیں گی اور جس کی وجہ سے ظالم وسرکش کا تمام کبر وغرور خاک میں مل جائے گا ۔ ہجرت کے معنی جہاں یہ ہیں کہ بطور احتجاج کے ظالم ومستبد حکومت کا ملک چھوڑ دیاجائے ، وہاں یہ بھی ہیں کہ مسلمان نہایت شریف النفس اور آزاد قوم ہے ضمیر ومذہب کی غلامی اس کے نزدیک بدترین گناہ ہے مسلمان اجنبی ممالک میں رہ کر تکلیف وتنگ دستی کے مصائب کو برداشت کرسکتا ہے مگر ایک لمحہ کی غلامی اس کے لئے ناقابل برداشت ہے ۔ (آیت) ” فقد وقع اجرہ علی اللہ “۔ سے مراد یہ ہے کہ اصل میں جہاد و ہجرت کا تعلق قلب ودماغ کی بےچینی سے ہے ، وہ لوگ جو احساسات وخیالات میں کفر کے لئے سخت اضطراب ونفرت پنہاں رکھتے ہیں وہ مجاہد ہیں گو حالات انہیں منزل مقصود تک پہنچنے کی اجازت نہ دیں ۔ حل لغات : عفو ۔ بدرجہ قصوی معاف کرنے والا ۔ مراغما : ایسی جگہ جو دشمنوں کے لئے باعث توہین وتحقیر ثابت ہو ۔