وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَىٰ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ
اور ( پھر وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں والا وعدہ کیا تھا۔ (پھر جب ایسا ہوا کہ وہ چالیس دن کے لیے تمہیں چھوڑ کر پہاڑ پر چلا گیا تو اس کے جاتے ہی) تم نے ایک بچھڑے کی پرستش اختیار کرلی، اور تم راہ حق سے ہٹ گئے تھے (یہ تمہاری بڑی گمراہی تھی)
(ف ١) موسیٰ (علیہ السلام) سے چالیس دن کے لئے وعدہ لیا گیا کہ وہ چالیس دن تک طور پر زہد وعبادت کی زندگی اختیار کریں اور اپنے آپ کو نبوت کے بارگراں کے لئے تیار کریں ، جب جا کے توریت کا نزول ہوگا ۔ موسیٰ (علیہ السلام) اس کے لئے تیار ہوگئے اور ہارون (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل میں چھوڑ گئے بنی اسرائیل مصر سے بت پرستی کے جذبات لے کر آئے تھے ، جب سامری نامی ایک شخص نے بچھڑا جس میں آواز پیدا کی گئی تھی ، اسرائیلیوں کے سامنے پیش کیا تو وہ سب اسے پوجنے لگے ، ان آیات میں انہیں واقعات کی طرف اشارہ ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت یہودیوں کو بتایا گیا ہے کہ تم ہمیشہ سے ایسے ہی رہے ہو کہ ذرا شریعت کا احتساب تم سے اٹھا اور تم پھرگئے ، اس کے بعد اس کا ذکر ہے کہ ہم نے باوجود اتنی بڑی جرات کے تمہیں تھوڑی سی سزا دے کر معاف کردیا جس کی تفصیل آگے آئے گی اور پھر تمہیں زندگی کے نشیب وفراز سمجھنے کے لئے مکمل دستور العمل عنایت کیا لیکن تم اس پر بھی امل نہ رہے ۔