وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا
اور (مسلمانو) جب کبھی تمہیں دعا دے کر سلام کیا جائے تو چاہیے کہ جو کچھ سلام و دعا میں کہا گیا ہے اس سے زیادہ اچھی بات جواب میں کہو یا (کم از کم) جو کچھ کہا گیا ہے اسی کو لوٹا دو بلاشبہ اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے (تمہاری کوئی چھوٹی سے چھوتی بات بھی اس کے محاسبہ سے چھوٹ نہیں سکتی)
سلام : (ف2) تحیۃ کے معنی اصل میں کلمات دعائیہ کے ہیں جن مخاطب کی درازی عمر مقصود ہو ۔ اسلامی اصطلاح میں مراد اسلام علیکم کہنا ہے ۔ بات یہ ہے کہ جہاد میں بعض دفعہ مسلمان باوجود ” السلام علیکم “ سننے کے مخاطب کو تلوار کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اس شبہ میں کہ یہ کہیں منافق نہ ہو ۔ قرآن حکیم نے فرمایا جو شخص تمہیں سلام کہے ، تمہارا فرض ہے کہ اسے مسلمان سمجھو اور اسے اس سے بہتر ہدیہ سلام پیش کرو ۔ یعنی مسلمان کو کسی حالت میں بھی زیبا نہیں کہ وہ سوء ظن سے کام لے اور خواہ مخواہ مسلمانوں کو کافر سمجھے ہر وہ شخص جو اسلام کا اظہار کرتا ہے ، مسلمان ہے ، باہمی ملاقات کے وقت یہ لفظ اسلام نے ایسا تجویز کیا ہے جو بےحد موزوں ہے اور مشرقی لٹریچر کا جزو بن گیا ہے ، یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اسلام دنیا کا کامل ترین مذہب ہے ۔