سورة النسآء - آیت 83

وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور جب ان لوگوں کے پاس امن کی یا خوف کی کوئی خبر پہنچ جاتی ہے تو یہ (فورا) اسے لوگوں میں پھیلانے لگتے ہیں اگر یہ اسے (لوگوں میں پھیلانے کی جگہ) اللہ کے رسول کے سامنے اور ان لوگوں کے سامنے جو ان میں حکم و اختیار والے ہیں پیش کرتے تو جو (علم و نظر والے) بات کی تہ تک پہنچنے والے ہیں، وہ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے (اور عوام میں تشویش نہ پھیلتی) اور (دیکھو) اگر اللہ کا تم پر فضل نہ ہوتا، اور اس کی رحمت نہ ہوتی، تو (تمہاری کمزوریوں کا یہ حال تھا کہ) معدودے چند آدمیوں کے سوا سب کے سب شیطان کے پیچھے لگ لیے ہوتے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

پروپیگنڈا : (ف2) منافقین پروپیگنڈا کی مؤثریت سے خوف واقف تھے ۔ جب کبھی کوئی بات ان کے ہاتھ لگتی ، خوب پھیلاتے ، وہ چاہتے تھے کہ نشرواشاعت کا یہ طریق نہایت کارگر ہے ، چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس کے اثرات کو تسلیم کیا ہے فرمایا ﴿وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا﴾ یعنی اگر خدا کی رحمتیں مسلمانوں کے شامل حال نہ ہوتیں تو وہ بجز چند سمجھ دار انسانوں کے ضرور گمراہ ہوجاتے ۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اکاذیب اراجیف کی اشاعت یکسر شیطانی فعل ہے ، اسلامی طریق اشاعت پروپیگنڈا کا مترادف نہیں ، حالانکہ اس کی وسعت دنیا کی تمام زبانوں سے زیادہ ہے ۔