مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ۖ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا
جو رسول کی اطاعت کرے، اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جو (اطاعت سے) منہ پھیر لے تو (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں ان پر نگراں بنا کر نہیں بھیجا (کہ تمہیں ان کے عمل کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے)
رسول (ﷺ) کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے ۔ (ف2) منصب نبوت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو تمامی اور اقتدار کے لئے چن لیتا ہے ، اس کی ہر بات فشائے الہی میں ڈھل کے نکلتی ہے ، اس کا دل و دماغ انوار و تجلیات سے معمور ہوتا ہے ، اس کی ہر حرکت ترجمان ہوتی ہے رضائے حق کی ، اس لئے کسی شخص کو رسول یا نبی کہہ دینا بجائے خود اسے صحت مند قرار دینا ہے ، مگر بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ذوق عربیت سے محروم ہیں ، اور قرآن کے اسلوب بدیع سے محض نا آشنا ۔ وہ حضور (ﷺ) کی اطاعت کو ضروری نہیں جانتے ، ان کے خیال میں قرآن حکیم اپنے موجودہ الفاظ کے ساتھ بالکل کافی ہے اور جو وسائل وذرائع قرآن فہمی کے لئے ضروری ہیں وہ چند لغت وادب کی کتابیں ہیں اور بس ، یہ نادان اتنی سی سمجھ بھی نہیں رکھتے کہ اگر کسی کتاب کو بلا کسی زبردست عمل کے سمجھا جا سکتا ہے تو پھر ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں کود پڑنے کی تکلیف کیوں دی ؟ موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون سے لڑنے کا کیوں حکم ہوا اور محمد (ﷺ) کو بدر و حنین کے معرکے کیوں بروئے کار لانا پڑے ؟ بات یہ ہے کہ دنیا میں کبھی باتوں اور نظروں سے انقلاب پیدا نہیں ہوا ۔ اس کے لئے ضرورت ہوتی ہے زبردست عملی قوت کی ۔ اس آیت میں یہی بتایا گیا ہے کہ جو شخص آپ کے نفش قدم پر چلے گا ، صراط مستقیم پر گامزن رہے اور جو انکار کرتا ہے وہ جان لے کہ اس کی اپنی بدبختی ہے ، آپ (ﷺ) مجبور نہیں کہ اس کو راہ راست پر لے آئیں اور یہ کہ آپ کی اطاعت براہ راست خدا کی اطاعت ہے ۔