مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ ۚ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا
تمہیں جو کوئی اچھائی پہنچتی ہے تو وہ محض اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو کوئی برائی پہنچتی ہے، وہ تو تمہارے اپنے سبب سے ہوتی ہے، اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں لوگوں کے پاس رسول بنا کر بھیجا ہے، اور اللہ ( اس بات کی) گواہی دینے کے لیے کافی ہے۔ (٤٨)
رفع تناقض : (ف1) ان دو آیتوں میں بظاہر تناقض معلوم ہوتا ہے کہ مصائب کو من عند اللہ بھی کہا ہے اور من نفسک بھی ، مگر خدا کا کلام ہر تناقض وتعارض سے پاک ہے ، پہلی آیت سے تشاوم کی تردید مقصود ہے ، دوسری سے منشا یہ ہے کہ مصائب کے ذمہ دار خود انسان ہیں ، جہاں تک کسی واقعہ کے سبب اول کا تعلق ہے وہ ظاہر ہے خدا کے سوا اور کوئی نہیں اور جہاں اسباب قریبہ کا بیان ہے ‘ واضح ہو کہ وہ انسان خود پیدا کرتا ہے یعنی گوہر مصیبت خدا کی طرف سے ہے مگر ہم حاصل اسے خود اپنے عمل سے کرتے ہیں ۔ اس لئے حضور (ﷺ) کے آنے سے تم مصیبتوں میں مبتلا ہوگئے ہو تو اس کی وجہ آپ (ﷺ) کی تشریف آوری نہیں ، تمہاری بدبختی اور انکار ہے ۔ حل لغات : حَسَنَةٍ سَيِّئَةٍ: نیکی اور برائی ، انعام اور مصیبت ۔