سورة النسآء - آیت 77

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللَّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً ۚ وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلَا أَخَّرْتَنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ ۗ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَىٰ وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے (مکی زندگی میں) کہا جاتا تھا کہ اپنے ہاتھ روک کر رکھو، اور نماز قائم کیے جاؤ اور زکوۃ دیتے رہو۔ پھر جب ان پر جنگ فرض کی گئی تو ان میں سے ایک جماعت (دشمن) لوگوں سے ایسی ڈرنے لگی جیسے اللہ سے ڈرا جاتا ہے، یا اس سے بھی زیادہ ڈرنے لگی، اور ایسے لوگ کہنے لگے کہ : اے ہمارے پروردگار ! آپ نے ہم پر جنگ کیوں فرض کردی، تھوڑی مدت تک ہمیں مہلت کیوں نہیں دی؟ کہہ دو کہ دنیا کا فائدہ تو تھوڑا سا ہے اور جو شخص تقوی اختیار کرے اس کے لیے آخرت کہیں زیادہ بہتر ہے، (٤٧) اور تم پر ایک تاگے کے برابر بھی ظلم نہیں ہوگا۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف1) ان آیات میں بتایا ہے کہ منافقین کی جماعت جب تک جہاد فرض نہیں ہوا تھا ، شور مچا رہی تھی کہ ہمیں لڑنے کی اجازت دی جائے اس وقت انہیں روکا گیا اور کہا گیا کہ صلوۃ وزکوۃ ہی پر اپنی تمام قوتیں مرکوز رہنے دو اور جہاد کا مطالبہ نہ کرو ، کیونکہ یہ ایک ہنگامی و وقتی چیز ہے ، مگر یہ تھے کہ اظہار ایمان وایقان کے لئے بیقرار تھے اور جب جہاد فرض قرار دیا گیا ، وقت آگیا کہ کفر کے خلاف اعلان جنگ کردیا جائے تو یہ انتہا درجے کے بزدل ثابت ہوئے ان کے دلوں میں لوگوں کا ڈر اس درجہ سرایت کر گیا کہ یہ بہانے تلاش کرنے لگے ، حالانکہ مومن سوائے خدا کے اور کسی شخصیت سے مرعوب نہیں ہوتا ، وہ اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ تمام قوتیں اس سے ڈریں اور مرعوب رہیں ، نہ اس لئے کہ وہ خود غیر اللہ اشخاص سے خائف ہو ، فرضیت جہاد کے بعد جس اضطراب اور گھبراہٹ کا اظہار لوگوں نے کیا ، قرآن حکیم نے بتفصیل اسکا ذکر کیا ہے تاکہ ان لوگوں کی جلد بازی اور وقت پر کم ہمتی ہمیشہ یاد رکھیں ، یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ لوگ جو صلح کے زمانے میں زیادہ پرجوش ہوتے ہیں ، جنگ کے زمانے میں نہایت عافیت پسند رہنے کی کوشش کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ دیکھو دنیا میں چند دن رہنا ہے ، اس چند روزہ زندگی کے لئے لیت ولعل نہ کرو ، وقت آگیا ہے تو کود پڑو ، انجام وعاقبت ایسے ہی جانبازوں کے لئے ہے ۔