فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
نہیں، ( اے پیغمبر) تمہارے پروردگار کی قسم ! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک یہ اپنے باہمی جھگڑوں میں تمہیں فیصل نہ بنائیں، پھر تم جو کچھ فیصلہ کرو اس کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں، اور اس کے آگے مکمل طور پر سر تسلیم خم کردیں۔
حکم مطلق : (ف1) اس آیت میں ربوبیت مطلقہ کی قسم کھا کر بیان کیا ہے کہ اطاعت رسول لازمی ولابدی شے ہے ، یعنی ربوبیت عامہ کا تقاضا یہ ہے کہ رسول (ﷺ) کے ہر حکم کے سامنے گردنیں جھک جائیں ، جب تک اطاعت وتسلیم کا رضا کارانہ جذبہ دلوں میں موجود نہ ہو ‘ ایمان ویقین کی شمع روشن نہیں ہو سکتی ۔ قرآن حکیم یہی نہیں فرماتا کہ رسول (ﷺ) کے سامنے اپنی گردنوں کو جھکادو ‘ بلکہ وہ یہاں تک اس کی تائید وتوثیق فرماتا ہے کہ دل کے کسی گوشے میں بدعقیدگی کی تاریکی موجود نہ رہے ۔ یقین وثبات کے پورے جذبات کے ساتھ نیاز مندی وعقیدت کے تمام ولولوں کے ساتھ مومن کے لئے ضروری ہے کہ آستانہ رسالت پر جھک جائے ، یعنی جوارح واعضاء کے ساتھ دل کا کونا کونا ضیاء اطاعت رسول (ﷺ) سے بقعہ نور بن جائے ، ورنہ الحاد زندقہ کا خطرہ ہے ۔ وہ لوگ جو قرآن کو تو بظاہر مانتے ہیں لیکن سنت واسوہ رسول (ﷺ) کی مخالفت کرتے ہیں ‘ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ نصوص قرآن کی مخالفت کر رہے ہیں اور وہ اسلام کی اس عملی زندگی سے محروم ہیں جو اصل دین ہے ۔