وَاتَّقُوا يَوْمًا لَّا تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ
اس دن کی پکڑ سے ڈرو جبکہ (انسان کی کوئی کوشش بھی اسے برے کاموں کے نتیجوں سے نہیں بچاسکے گی اس دن) نہ تو کوئی انسان دوسرے انسان کے کے کام آئے گا، نہ کسی کی سفارش سنی جائے گی، نہ کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے گا، اور نہ کہیں سے کسی طرح کی مدد ملے گی
(ف ١) ان آیات میں دوبارہ بنی اسرائیل کو مخاطب کیا ہے تاکہ ان پر وہ تمام انعام جو کئے گئے ہیں ، گنائے جائیں اور انہیں دین حنیف کی طرف مائل کیا جائے ، اولا یہ فرمایا کہ تمہیں ہم نے اپنے تمام معاصرین پر مادی وروحانی فضیلت دی ، ثانیا ان کو ان کے موجودہ مزعومات سے باز رہنے کی تلقین فرمائی کہ تم یہ نہ سمجھو کہ تمہارے احباء وعلماء تمہارے اولیاء وشہداء تمہیں مکافات عمل کے ہمہ گیر قانون کی گرفت سے بچا لیں گے ، اس قسم کی سفارش جو ذاتی عمل سے معرا ہو ۔ قطعا سود مند نہیں ہے ۔ قرآن حکیم نے عام طور پر شفاعت کی نفی کی ہے اور کہیں کہیں (آیت) ” الا من اذن لہ الرحمن “ کہہ کر ایک نوع کے لوگوں کو مستثنے قرار دیا ہے جس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ سفارش کا وہ مفہوم جو یہ لوگ سمجھے ہوئے تھے ‘ بالکل غیر موزوں ہے یعنی شریعت کی مخالفت کے باوجود شفاعت پر بھروسہ ، یہ محض فریب نفس ہے ، جس میں یہ لوگ مبتلا تھے ، اس لئے قرآن حکیم نے اس عقیدے کی پرزور تردید کی اور انہیں عمل پر آمادہ کیا ۔