وَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلًا
اور انہیں ان کے حال پر زیادہ نہیں تو تھورے دنوں کے لیے چھوڑ دو، پھر دیکھو کہ حق کے یہ جھٹلانے والے، جوطرح طرح کی خوشحالیوں اور دنیوی عزتوں میں اپنے تئیں پاکر بڑے ہی متکبر اور مغرور ہوگئے ہیں
امراء کیوں مخالفت کرتے ہیں ! ف 1: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اپنی بعثت کا اعلان کیا ۔ تو حسب دستور جن لوگوں نے انکار کیا ۔ وہ مفلس اور قلاش لوگ نہ تھے ۔ بلکہ وہ لوگ تھے ۔ جو صاحب مال ومنال تھے ۔ اور ابتداء سے یہ سنت چلی آرہی ہے ۔ کہ حق وصداقت کی مخالفت میں بھی روسا کا طبقہ پیش پیش رہتا ہے ۔ اور اس کی وجہ غالباً یہ ہے ۔ کہ غرباء کا دین سے کوئی تصادم نہیں ہوتا ۔ ان کی آرزوئیں اور خواہشیں نہایت محدود اور ادنی قسم کی ہوتی ہیں ۔ مگر یہ اکابر سیادت وقیادت کے خلاں اور منصب وجاہ کے متوالے ہوتے ہیں ۔ اور یہ بھی چاہتے ہیں ۔ کہ قانون واخلاق کی کوئی پابندی ان پر عائد نہ ہو ۔ مذہب کی پہلی لڑائی انہیں اغراض کی اصلاح کے لئے ہوتی ہے ۔ ان کی ریاست چھن جاتی ہے ۔ ان کی قیادت باقی نہیں رہتی ۔ دولت وثروت بھی خطرے میں پڑجاتی ہے ۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ مذہب قانون واخلاق کی مساوات کی بناء پر ان خواہشات نفس کی تکمیل نہیں ہونے دیتا ۔ اور مطالبہ کرتا ہے ۔ کہا نسانی خون اور انسانی حرمت واعزاز کے سلسلہ میں بڑے چھوٹے اور امیروغریب کا کوئی امتیازباقی نہ رکھا جائے پھر اس پر اکتفا نہیں کرتا ۔ بلکہ اپنی تربیت کے لئے ان غریبوں کو چن لیتا ہے ۔ جن کو یہ لوگ حقیر وذلیل جانتے ہیں ۔ اور پھر ان کی روحانیتوں کو اتنا مجلی کردیتا ہے ۔ کہ یہ ان لوگوں پر حکومت کرتے ہیں ۔ اس لئے فرمایا ۔ کہ اگر یہ اربات تنعم آپ کے پیغام کو نہیں مانتے ۔ اور آپ کی راہ میں مشکلات کا ایک پہاڑ حائل کرنا چاہتے ہیں ۔ تو قطعاً پرواہ نہ کریں ۔ ان کو پسند ہے مہلت دیں ۔ اس کے بعد ان کو ہمارے پاس پاجولاں ۔ کشاں کشاں آتا ہے ۔ ان کے لئے جہنم ہے ۔ اور ایسا کھانا ہے ۔ جو گلے میں پھنس کررہ جائے ۔ جہاں آگ ہے ۔ تپش ہے ۔ اور عذاب الیم ہے ۔ فرمایا کہ ان لوگوں کو اس دنیائے دوں پر ناز ہے ۔ اور یہ اس زندگی کی بھول میں ہیں ۔ حالانکہ یہ ساری بساط الٹنے کو ہے ۔ یہ زمین اپنی وسعتوں اور شاداہوں کے باوجود اللہ کے بیک ارادہ تحریک متاثر ہوکر کانپے گی ۔ اور یہ پہاڑ اپنی بلندیوں سمیت لرزیں گے ۔ اور یوں ہوجائینگے ۔ جس طرح سبالو کا شیلہ ہوتا ہے *۔ شاہد اسے غرض یہ ہے ۔ کہ قیامت کے دن اللہ کے حضور میں آپ تمہاری تکذیب اور تمہارے ایمان کی گواہی دینگے اور بتائیں گے ۔ کہ کن لوگوں نے دعوت اسلام کو قبول کیا ۔ اور اللہ کی رضا کے جو یا ہوئے ۔ اور کون محروم رہے ۔ اور اس کے سخط وغضب کا ہدف بنے *۔ حل لغات :۔ انکالا ۔ بیڑیاں * خاغصۃ ۔ جو حلق کے نیچے نہ اتر سکے * مھیلا ۔ سر سبز متعلق ازھیل بسنے ضرور بخت بیٹھا ہوا * وسیلا ۔ سخت *۔