سورة النسآء - آیت 43

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے ایمان والو ! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو اس وقت تک نماز کے قریب بھی نہ جانا جب تک تم جو کچھ کہہ رہے ہو اسے سمجھنے نہ لگو۔ (٣٢) اور جنابت کی حالت میں بھی جب تک غسل نہ کرلو، (نماز جائز نہیں) الا یہ کہ تم مسافر ہو (اور پانی نہ ملے تو تیمم کر کے نماز پڑھ سکتے ہو) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت کی جگہ سے آیا ہو یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو، پھر تم کو پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلو، اور اپنے چہروں اور ہاتھوں کا (اس مٹی سے) مسح کرلو۔ بیشک اللہ بڑا معاف کرنے والا بڑا بخشنے والا ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

(ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ نماز کے وقت سکرو مستی میں نہ رہو ۔ بات یہ تھی کہ تحریم خمر کی آیات کے نزول سے پہلے شراب عام طور پر استعمال کی جاتی تھی ، حضرت عبداللہ بن عوف (رض) نے صحابہ (رض) عنہم اجمعین کی دعوت کی اور اس میں شراب میں بھی انتظام کیا ، سب نے پی اور مست ہوگئے ، مغرب کی نماز میں امام جب قرآن پڑھنے لگا تو غلط ملط آیا پڑھ گیا جس پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔ (آیت) ” حتی تعلموا ما تقولون “ ۔ کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ الفاظ کی صحت کا خیال رہے اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ نماز پڑھتے وقت نماز کی روح ومعنویت سے واقف رہنا نہایت ضروری ہے ۔ وہ شخص جو نماز کا سادہ سے سادہ ترجمہ بھی نہیں جانتا وہ کیونکر صحیح معنوں میں نماز کے کوائف روحانیہ سے لطف اندوز ہو سکتا ہے ! جہاں تک الفاظ کا تعلق ہے یہ اتنے سخت ہیں کہ بلا ترجمہ وعلم نماز پڑھنا قرآن کے نزدیک بمنزلہ سکرومستی کے ہے ، اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے اور ہماری نمازوں کو قبول فرمائے ۔ فلسفہ تیمم : (ف ٢) معذوری کی حالت میں جب پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلینا کافی ہے مقصد یہ ہے کہ مسلمان خدا کی عبادت میں بہرحال کوشاں رہے اور کوئی معذوری اس کے لئے رکاوٹ کا باعث نہ ہو سکے ، چونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو باقاعدہ وباضابطہ رہنے کی تلقین کی ہے اس لئے ضروری ہے کہ وہ بہرحال ضبط وانتظام میں فرق نہ آنے دے ۔ تیمم کے معنی قصد وارادہ کے ہیں ۔ یعنی ضرورت اس بات کی ہے کہ ارادہ پاک وبلند رہے ۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ ہر حالت وکیفیت میں پانی ضروری ہو ۔