سورة القلم - آیت 48

فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

بہرحال تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں ثابت قدم رہو اور اس مچھلی والے کی طرحنہ ہوجاؤ جس نے مغموم ہو کر خدا کو آواز دی تھی

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 2: یعنی ان لوگوں کے انکار وکفر پر آپ غمگین ہوکر حضرت یونس (علیہ السلام) کی طرح دبدعا میں اور ترک شفقت میں جلدی نہ کریں ۔ اور پورے صبروسکون کے ساتھ ان کی ان حرکتوں کو برداشت کریں ۔ اللہ نے چاہا ۔ تو آپ کی آواز صدابحر ثابت نہیں ہوگی ۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا قصہ یہ ہے ۔ کہ آپ کی نافرمانی سے رنجیدہ ہو کر اللہ کے عذاب کے طالب ہوئے اور اصلاح سے مایوس ہوکر قوم کو چھوڑ کر ہجرت پر آمادہ ہوگئے ۔ یہ ادا اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آئی ۔ اور سزا یہ ملی ۔ کہ دب دریا پار کرنے لگے ۔ تو ایک بڑی مچھلی کا لقمہ بن گئے ۔ اور اگر پھر اللہ کی طرف سے توبہ وانابت کی توفیق مرحمت نہ ہوتی ۔ تو مچھلی کے پیٹ سے نہ نکلتے ۔ اور اللہ کا اقدام شامل حال نہ ہوتا ۔ تو میدان میں برے حالوں پڑے رہتے ۔ یہ اللہ کا فضل تھا ۔ کہ اس نے حضرت یونس (علیہ السلام) کو دوبارہ زندگی بخشی ۔ اور اس قابل بنایا ۔ کہ وہ از سر نو تبلیغ ودعوت کے فرائض کو انجام دے سکیں *۔