سورة القلم - آیت 42

يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

وہ دن آنے والا ہے جب کہ ساق (الٰہی) کھلے گی اور ان لوگوں کوسرافگندگی (سجدے) کید عوت دی جائیگی مگر اس سوقت ان میں اتنی قدرت واستطاعت کہاں؟

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 1: فرمایا ۔ ان عبادت ناآشنا لوگوں کو جب اس وقت دعوت سجود دی جائے گی ۔ جب کہ قیامت کے اہوال شدتوں پر ہوں گے ۔ تو اس وقت ان کی جبشیں قطعاً نہیں جھک سکیں گی ۔ ان کی نظریں مارے شرم وندامت کے زمین بوس ہوں گی ۔ اور ان پر ذلت ومقارت چھارہی ہوگی ۔ اس وقت ان کو معلوم ہوگا ۔ کہ دنیا میں باوجود تندرستی اور صحت وتوانائی کے ذوق عبادت سے محرومی کتنا بڑا جرم تھا ۔ فرمایا ۔ یہ لوگ آج ان حقائق کو جھٹلاتے ہیں ۔ مگر بتدریج غیر محسوس طریق پر یہ لوگ جہنم کی طرف لپکے ہوئے جارہے ہیں *۔ حل لغات :۔ تدرسون ۔ پڑھتے ہو * زعیم ۔ ذمہ دار ، ضامن * یکشف عن ساق ۔ حضرت ابن عباس سے پوچھا گیا ۔ کہ کشف عن الساق کے کیا معنے ہیں ۔ آپ نے فرمایا ۔ جو بات سمجھ میں نہ آئے ۔ اس کو اشعار عرب کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کیا کرو ۔ کیونکہ وہ عربی کے ذخائر معلومات کا بہت بڑا اور مستنددفتر سے اس کے بعد فرمایا ۔ اس کے معنے کرب اور شدت کے ہیں ۔ اور سند میں یہ شعر پڑھا ؎ ستن استہ قومک ضرب الاخناق وقاھت الحرب بنا علے ساق ان معنوں میں اور بھی اشعار عربی ادب میں آئے ہیں ۔ ابوعبیدہ قیس بن زبیر کو مخاطب کرکے کہتے ہیں ؎ فلن شموت یلقہ عن ساقیا * فذاقھار بیع ولا قساہد * جریر کہتا ہے : الارب سامداعطرف من ال معازن اطاشھر تاقھا الحرب شمرا ابن قبیہ کہتے ہیں ۔ کہ یہ معنے یوں پیدا ہونے کو آدمی عموماً جب کسی مرکے درپے ہوتا ہے ۔ تو فرط اضطراب سے پنڈلیوں پر سے کپڑا اٹھا لیتا ہے ۔ اس لئے مقام شدت وکرب میں اس کا استعمال ہونے لگا ۔ اور لوگ کہنے لگے کہ کشف عن ساتہ *۔