سورة الملك - آیت 18

وَلَقَدْ كَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور ان سے (یعنی کفار مکہ سے) پہلے بھی جو لوگ گزر چکے ہیں (وہ اپنے پیغمبروں کو) جھٹلا چکے ہیں پھر دیکھ لو کہ میری نکیر ان پر کیسی (تباہ کن ثابت) ہوئی ؟

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

فریب نفس کی بدترین مثال ف 1: اللہ تعالیٰ کا قانون ہے ۔ کہ وہ مجرموں کو سنبھلنے کی کافی مہلت دیتا ہے تاکہ تمام حجت ہوجائے ۔ اور ان کے پاس کوئی معقول عذر باقی نہ رہے ۔ وہ ڈھیل دیتا ہے ۔ اور درگزرعفوسے کام لیتا ہے ۔ تاکہ یہ اپنے طرز عمل پرغور کرسکیں مگر ان کے مزاج اس قدر بڑا ہوجاتے ہیں ۔ اور وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ کہ خدا ہم سے خوش ہے ۔ اور ہم اس کے عذاب سے ہمیشہ مامون اور محفوظ رہیں گے ۔ اس کا استدلال یہ ہوتا ہے ۔ کہا گر اس کو ہمارے افعال ناگوار ہوتے ۔ اور اس کے نزدیک ہم گنہگار ہوتے ۔ تو کبھی کے مٹ گئے ہوتے ۔ اور اس کے غضب نے ہمارا قصہ تمام کردیا ہوتا ۔ اب جو باوجودانکار اور کفر کے چین سے بسرہو رہی ہے ۔ تو اس کے صاف معنے یہ ہیں ۔ کہ ہمارے عقائد اس کو ناگوار نہیں ۔ اور وہ ہم کو حق بجانب سمجھتا ہے ۔ اس مغالطہ اور فریب نفس کو دور کرنے کے لئے فرمایا ۔ کہ تم لوگ اپنے کو اس درجہ گستاخ نہ بنالو ۔ اور اس درجہ نڈر نہ ہوجاؤ۔ کہ رب السموت کی پکڑ سے تمہارے بدن پر لرزہ طاری نہ ہو ۔ یاد رکھو تم دن اور رات کی ہر ساعت میں اللہ کی گرفت میں ہو ۔ وہ جب چاہے زمین کو اکٹ اے ۔ اور تم کو پیش کر رکھ دے اور جب چاہے آسمان سے پتھروں کا مینہ برسا دے ۔ اور تم کو بیخ ذہن سے اکھاڑدے ۔ پھر اس وقت تمہیں معلوم ہو کہ اس کا تنبیہ کتنا صحیح اور درست ہے تم سے پہلے بھی قوموں نے اللہ کے دین کو جھٹلایا ۔ اور تمہاری طرح خداع نفس میں مبتلا ہوگئے ۔ کہ ہمیں کون پوچھتا ہے ۔ اور کون سزا دیتا ہے ۔ کہ یکایک اللہ کا غضب بھڑکا اور ان کی بستیوں کو فناکے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ اس وقت دنیا کی کوئی قوت ان کو نہ بچا سکی ۔ اور مال ودولت اور اعزاز فخر قطعاً ان کی سفارش نہ کرسکے ۔ ان حالات میں کیا تم یہ سمجھتے ہو ۔ کہ تم اس کے چہتے ہو تمہیں فسق وفجور کے باوجود وہ ضرور باقی رکھے گا ۔ نہیں ہرگز نہیں ۔ اللہ کے نزدیک کوئی قوم چہتی نہیں ۔ وہ سب سے یکساں سلوک روا رکھتا ہے ۔ اور اس کے ہاں صرف ایک ہی قانون ہے ۔ مکافات کا جو سب کے لئے جاری ہے *۔