سورة التحريم - آیت 9

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اللہ تعالیٰ کفار کے لیے نوح اور لوط کی بیویوں کی مثال بیان فرماتا ہے وہ ہمارے بندوں میں سے دو نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں پھر ان دونوں نے ان نیک بندوں سے خیانت کی اور وہ دونوں اللہ کے مقابلہ میں ان کے کچھ کام نہ آئے اور ان دونوں سے کہہ دیا گیا کہ جاؤ آگ میں داخل ہونے والے لوگوں کے ساتھ تم بھی داخل ہوجاؤ(٤)

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اسلام کی زندگی کفر کی موت ہے ف 2: کفر ایمان کے مابین ایک ازلی آویزش ہے ۔ اور جنگ ہے یہ ناممکن ہے کہ منکرین کے ہاتھ میں قوت واقتدار ہو ۔ اور وہ اسلام کو بخوبی گوارا کرلیں ۔ اور اس چیز کو برداشت کرلیں ۔ کہ اللہ کے بندہ علی الاعلان اس کا نام بلند کرسکیں ۔ اس کے دین کو پھسلایا کریں اور مظالم کے انسداد کے لئے منظم ہوسکیں ۔ کیونکہ اسلام کے بقاء اور کی اشاعت کا بدلہ نتیجہ اوہام اور خرافات کی موت ہے ۔ جہل اور تعصب کی موت ہے ۔ ظلم اور سفا کی کی موت ہے ۔ باطل اور جھوٹ کی موت ہے ۔ پھر اس طرح زندگی اور موت کبھی یکجا نہیں ہوسکتے ۔ تاریکی اور روشنی میں تعاون محال ہے ۔ اسی طرح یہ ناممکن ہے ۔ کہ مسلم اور کافر بشیب خاطر متحد ہوجائیں ۔ تمدنی تعلقات کا ہونا دوسری بات ہے مگر جہاں تک کفرواسلام کی فطرت کا معلق ہے ۔ ان کا اجتماع آگ پانی ۔ اور وخرمن کا اجتماع ہے ۔ اور جب کیفیت یہ ہو ۔ کہ کفر حق وصداقت کی راہ میں کانٹے بچھائے ۔ اور مشکلات پیدا کرے ۔ تو اس وقت فرض ہوجاتا ہے ۔ کہ کفرکی قوت اور شوکت کو ہمیشہ کے لئے کچل دیاجائے ۔ تاکہ دنیا اسلام کی برکات سے بہرہ مندی کے لئے تیار ہوجائے ۔ اس ضمن میں کسی رعایت اور مروت کا خیال نہیں رکھنا چاہیے ۔ اس لئے اس آیت میں فرمایا ہے کہ ان کفار اور منافقین کی شرارتیں حد اعتدال سے تجاوز کرگئی ہیں ۔ اس لئے آپ ان سے جہاد کیجئے ۔ اور ان پر سختی کیجئے ۔ مدعا یہ ہے کہ کفار کو تلوار سے رو کیے ۔ اور منافقین کو دلیلوں اور حدود قائم کرنے سے *۔ حل لغات :۔ نوبۃ نصوحا ۔ خالص سچی توبہ ۔ جس میں ریاکا کوئی شائبہ نہ ہو * اتمم فنانورنا ۔ یعنی اس روشنی کو باقی رکھ * جاھد الکفار والمنفقین ۔ اسمیں فقط جہاد کے دو معنے ہیں ۔ کفار کے مقابلہ میں لا السیف اور منافقین کے مقابلہ میں باللسان *