يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے پیغمبر تم اپنی بیویوں کی خوشی کے لیے اس چیز کو اپنے اوپر کیوں حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لیے حلال کردی ہے (١)۔
سورہ تحریم کی شان نزول (ف 1) ان آیات میں دو مشہور واقعات کی طرف اشارہ ہے ۔ ایک یہ ہے کہ حضور (ﷺ) عام طور پر ام المومنین حضرت زینب بنت جحش کے ہاں توقف فرماتے اور شہدکھاتے ۔ یہ بات حضرت عائشہ اور حصرت حفصہ کو سوکن ہونے کی وجہ سے ناگوار محسوس ہوتی ۔ اس لئے طے یہ پایا کہ جب حضور (ﷺ) شہدنوش فرماکر تشریف لائیں تو اس وقت ان سے کہا جائے کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بوآرہی ہے (مغافیر ایک قسم کی بدبو دار گوند ہے) اور چونکہ بو سے آپ کو طبعی نفرت ہے اس لئے اس تدبیر سے آپ حضرت زینب سے شہد کھانا اور چندے قیام فرمانا چھوڑ دیں گے ۔ چنانچہ باری باری حضرت حفصہ نے حضور (ﷺ) سے یہی کہا تو آپ نے عہد کرلیا کہ میں آئندہ شہداستعمال نہیں کروں گا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے متنبہ ہوا کہ محض امہات المومنین کو خوش کرنے کے لئے آپ کو استحقاق نہیں ہے کہ اللہ کی حلال وطیب نعمتوں کو اپنے اوپر عملاً حرام ٹھہرالیں اور یہ عہد کرلیں کہ آئندہ ان چیزوں سے استفادہ نہیں کیا جائے گا ۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ حضرت حفصہ کو حضور (ﷺ) نے بعض اسرار کی اطلاع دی اور کہہ دیا کہ یہ باتیں ظاہر نہ ہونے پائیں انہوں نے بر بنائے بےتکلفی ان اسرار کو حضرت عائشہ تک پہنچا دیا اور یہ سمجھا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ پھر جب حضور (ﷺ) کو معلوم ہوگیا کہ وہ بات جو میں نے کہی تھی اور جس کے اخفا کی تاکید کی تھی ظاہر ہوگئی ہے ۔ تو آپ نے حضرت حفصہ کو باتوں باتوں میں جتا دیا کہ دیکھو آخر تم راز کو اپنے سینے میں پنہاں نہ رکھ سکیں ۔ انہوں نے پوچھا آپ سے کس نے کہا آپ نے فرمایا اس کی ٹٹول فضول ہے۔ انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ بات بہت اہم تھی اور اس قابل تھی کہ اس کو وقت مقررہ سے پہلے افشا نہ کیا جائے ۔ وہ لوگ جن کو مسئلہ خلافت سے دلچسپی ہے ۔ ان کی رائے ہے کہ یہ راز حضرت ابوبکر اور حضرت کی خلافت سے متعلق تھا واللہ اعلم ۔