سورة الطلاق - آیت 11

رَّسُولًا يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللَّهِ مُبَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ قَدْ أَحْسَنَ اللَّهُ لَهُ رِزْقًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ایک ایسا رسول جو تم کو اللہ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے جو احکام الٰہی کو واضح کرنے والی ہیں تاکہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے اور جو بھی اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے اللہ اسے جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی یہ لوگ ان میں ہمیشہ رہیں گے بے شک اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے عمدہ رزق تیار کررکھا ہے

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

زندہ قرآن (ف 1) قرآن حکیم نے متعدد مقامات میں منصب نبوت کی تصریح کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ پیغمبر کی حیات عقیدت مندوں کے لئے بہترین اسوہ اور نمونہ ہے ۔ اور ان کی اطاعت اور ان کے ساتھ محبت رکھتے ہیں ۔ مسلمانوں کی نجات ہے ۔ مگر ایک برخود غلط گروہ کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کے سوا اور کوئی شخصیت مطاع نہیں ہے ۔ اور رسول (ﷺ) کی حیثیت محض یہ ہے کہ وہ پیغام کو ہم تک پہنچا دیتا ہے ۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اسکو لغت اور ادب کی روشنی میں سمجھیں ۔ رسول (ﷺ) یا تو کچھ تفصیلات بیان ہی نہیں کرتا ۔ اور یا اس کی بیان کردہ تفصیلات ہمارے لئے مستند نہیں ہیں ۔ اس آیت نے اس مغالطہ کو دور کردیا ہے اور بالکل واضح کردیا ہے کہ وہ ذکر جس کی پیروی کی تم کو تلقین کی گئی ہے اس کو صرف قرآن کے اوراق میں نہ ڈھونڈو کہ اس طرح تم حق وصداقت کو تلاش کرنے میں قطعاً ناکام رہو گے ۔ اس کو رسول کی زندگی کے صفحات میں ڈھونڈو کہ وہ اللہ کی طرف سے مامور ہے کہ آیات بینات کو تفصیل کے ساتھ پڑھ کر سنائے اور اس طرح انسانیت کو فہم واستدلال کے تاریک جنگلوں سے نکال کر ایمان اور تقویٰ کی روشن وادیوں میں پہنچادے۔ ترکیب نحوی کے لحاظ سے یہاں رسولاً ذکر ا کا بدل ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اطاعت اور فرمانبرداری جو قرآن میں مذکور ہے اس کی تکمیل اسوقت تک نہیں ہوسکتی جب تک اس کو رسالت کی روشنی میں نہ دیکھاجائے ۔ کیونکہ رسول (ﷺ) ہی قرآن کا مخاطب اول ہے اس کا دل مہبط وحی ہے اس کے اعمال پر اس کو خدا کی جانب سے تبیہ ہوتا ہے ۔ اس کی شان میں آیا ہے ﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى﴾ یعنی وہ جو کچھ نہیں کہتا ۔ اس حالت میں یہ کیونکر ممکن ہے کہ قرآن کی تفصیلات حجت اور سندنہ ہوں ۔ اور وہ فاسق وفاجرا نسان جو چند کتابیں پڑھ لیتا ہے قرآن کا معتبر شارح بن جائے ۔ وہ جس کا استاد جبرائیل ہو ﴿عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى وہ جس کا سینہ حقائق کے فہم کے لئے کشادہ اور وسیع ہو ﴿أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ﴾وہ تو قرآن کو صحیح نہ سمھے اور آج کل کے روشنی والے درست اور صحیح سمجھیں ۔ جو نہ دولت علم سے بہرہ مند ہیں اور نہ صلاح وتقویٰ سے آشنا ۔ برین عقل وہمت بباید گریست سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سوائے اس قرآن کے جس کو ہم سمجھتے ہیں اور کوئی بات حجت نہیں ۔ وہ کس درجہ گستاخی کا ثبوت دیتے ہیں۔ کیا ان کے نزدیک منصب نبوت کے معنی محض یہ ہیں کہ وہ ایک نوع کی سفارت ہے جس کو سیرت اخلاق اور اعمال کے ساتھ کوئی وابستگی نہیں ۔ کیا رسول (ﷺ) کی یہی حیثیت ہے کہ وہ قرآن کو بلا کم وکاست پہنچا دے ۔ چاہے معاذ اللہ خود نہ سمجھے اس پر عمل نہ کرے اور دوسروں کو نہ سمجھائے اگر واقعہ اس کے برعکس ہے تو منکرین سنت بتائیں کہ رسول کا فہم اس کا عمل اور اس کی سیرت کہاں منضبط ہے ؟ کن کتابوں میں موجود ہے ! آخر قرآن فہمی کی ضرورت تو ان کو ان حاملین قرآن سے کہیں زیادہ محسوس ہوتی ہوگی وہ قرآن فہمی ہے کہاں ؟ حل لغات: النُّورِ۔ روشن اور وضاحت ۔