إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ
اے نبی جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں (مگر) اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین جھوٹے ہیں (١)
منافقین بزدل ہیں (ف 2) قرآن حکیم نے منافقین کے اسرار واحوال کئی مقامات پر واشگاف طور پر بیان کئے ہیں تاکہ ان کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی واقعہ اور کوئی سازش پوشیدہ نہیں وہ ہر حرکت کو جانتا ہے اور ہر شرارت سے آگاہ ہے اس کو دھوکہ نہیں دیا جاسکتا ۔ اس صورت میں بالخصوص ان کے افعال کی مذمت کی اور بتایا کہ ان کو دیکھوتو بظاہر بھلے چنگے معلوم ہوتے ہیں شکل وشباہت سے وجاہت ٹپکتی ہے معقول آدمی دکھائی دیتے ہیں ۔ مگر قلب ودماغ کی یہ کیفیت ہے کہ بالکل بیکار ہیں ۔ جس طرح غیر ضروری لکڑیاں دیوار کے سہارے کھڑی کردی جاتی ہیں اسی طرح یہ لوگ بالکل مہمل ہیں ۔ ان سے فائدہ کی توقع فضول ہے ۔ یعنی دنیا کے کاروبار میں بلحاظ غیر مفید ہونے کے ان کو لکڑیوں سے تشبیہ دی ہے باوجود اس ڈیل ڈول اور اور جسامت کے بزدل اس درجہ ہیں کہ ہر آواز کو جو بلندہو یہ سمجھتے ہیں کہ ان ہی کی مخالفت میں بلندہوتی ہے ۔ دلوں میں تسکین وطمانیت موجود نہیں ہر آن سہمے ہوئے رہتے ہیں اور انہیں خطرہ رہتا ہے کہ کہیں ہماری بدمعاشیوں کی وجہ سے ہم کو گزند نہ پہنچایا جائے ۔ اس آیت میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہےکہ کفر کی ظاہری چمک دمک اور رکھ رکھاؤ سے متاثر نہیں ہونا چاہیے ۔ منکرین کی دولت اور ثروت کو دیکھ کر یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اللہ ان سے خوش ہے اور اللہ کا ان پر بڑا کرم ہے ۔ کیونکہ جہاں تک ان کے باطن کا تعلق ہے اس میں جرات موجود نہیں ہے ۔ پاکیزگی اور تقویٰ کا نام ونشان تک نہیں اور وہ فضائل جو ایک انسان میں موجود ہونے ضروری ہیں ان سے یہ لوگ یک قلم محروم ہیں منافقین کے حق میں طلب بخشش فضول ہے ۔