حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
تم پر حرام کردی گئی ہیں تمہاری مائیں، تمہاری بیٹیاں، تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں، تمہاری خالائیں، اور بھتیجیاں اور بھانجیاں، اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے، اور تمہاری دودھ شریک بہنیں، اور تمہاری بیویوں کی مائیں، اور تمہارے زیر پرورش تمہاری سوتیلی بیٹیاں (١٩) جو تمہاری ان بیویوں (کے پیٹ) سے ہوں جن کے ساتھ تم نے خلوت کی ہو۔ ہاں اگر تم نے ان کے ساتھ خلوت نہ کی ہو (اور انہیں طلاق دے دی ہو یا ان کا انتقال ہوگیا ہو) تو تم پر (ان کی لڑکیوں سے نکاح کرنے میں) کوئی گناہ نہیں ہے، نیز تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں بھی تم پر حرام ہیں، اور یہ بات بھی حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرو، البتہ جو کچھ پہلے ہوچکا وہ ہوچکا۔ بیشک اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔
کن کن عورتوں سے نکاح درست نہیں ؟ (ف2) اسلام میں خوبی یہ ہے کہ وہ الہیات کی مشکل گتھیاں بھی سلجھاتا ہے اور معاشرت کے نکات بھی اس کے ریاض توحید میں عالم غیب کے اسرار بھی ہیں اور عالم شہود کے واقعات بھی ، اخلاق کے دقیق ابواب معاشرت کے چھوٹے چھوٹے مسائل تک ہیں اور بہرحال یہ دعوی درست ہے کہ اسلام ایک کامل ومفصل مذہب ہے ، یہ بات کتنی افسوسناک ہے کہ وہ مذاہب جن میں الہیات کے اسرار وغوامض پر تو بحث ہے مگر روز مرہ کے واقعات سے تعرض نہیں ‘ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور وہ مسلک جس میں جامعیت وکمال تابحد مبالغہ ہے ، بدنام ہے ۔ ان آیات میں محرمۃ النکاح عورتوں کا بیان ہے ۔ یعنی وہ عورتیں جن سے نکاح درست نہیں ۔ اور وہ یہ ہیں : 1۔ منکوحہ اب ، یعنی باپ کی بیوی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے خیال میں ” مزنیہ اب‘‘ بھی اس میں داخل ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اسے صرف جائز ازواج تک محدود رکھتے ہیں ، قرآن حکیم کے الفاظ سے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تائید ہوتی ہے اور مفہوم ومنشاء کے اعتبار سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ۔ ﴿إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ﴾سے مراد یہ ہے کہ گزشتہ واقعات اس تعزیر میں شامل نہیں جو ہو چکا سو ہوچکا ، مگر نزول کے بعد ایسی شادیاں ناجائز ہیں ۔ اس لئے حضور نے بہت سے ایسے واقعات میں تفریق کرا دیں ۔ 2۔ مائیں ، بیٹیاں ، بہنیں ، پھپھیاں ، خالائیں ، بھتیجیاں اور بھانجیاں ‘ اس لئے کہ فطرت انسانی ان رشتوں کو احترام وشفقت کی نظر سے دیکھتی ہے ، اس لئے طبیعت اس طرف مائل ہی نہیں ہوتی ۔ 3۔ رضاعی رشتے یعنی وہ عورتیں جن سے دودھ کا رشتہ ہو ، ظاہر ہے رضاعت سے لڑکے کے دل میں وہی جذبات پیدا ہوجاتے ہیں جو حقیقی ماں کی نسبت اس لئے ان رشتوں کو بھی احترام وعزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے ، 4۔ ساس اس لئے کہ ساس بھی بمنزلہ ماں کے ہے ، 5۔ ربائب ، یعنی وہ زیر تربیت بچیاں جو تمہاری بیویوں کی آغوش شفقت میں رہی ہوں ، حرمت کی وجہ ظاہر ہے ۔ 6۔ بہو ۔ 7۔ ﴿تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ﴾ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں فطرت نے جو دو بہنوں میں محبت رکھی ہے ، وہ رقابت کے بدترین جذبے سے بدل جائے گی اور اسلام یہ نہیں چاہتا کہ کوئی تعلق کسی بدمزگی کا باعث ہو ، اسلام تو دنیا میں محبت ورفائیت پیدا کرنے آیا ہے نہ رقابت ودشمنی کے لئے ۔ حل لغات : حُجُور: جمع حجر ۔ گود ۔ حَلَائِلُ: جمع حلیلۃ بمعنی بیوی ۔