يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا ۖ وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا
اے ایمان والو ! یہ بات تمہارے لیے حلال نہیں ہے کہ تم زبردستی عورتوں کے مالک بن بیٹھو، اور ان کو اس غرض سے مقید مت کرو کہ تم نے جو کچھ ان کو دیا ہے اس کا کچھ حصہ لے اڑو، الا یہ کہ وہ کھلی بے حیائی کا ارتکاب کریں، (١٦) اور ان کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو، اور اگر تم انہیں پسند نہ کرتے ہو تو یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔
عورتیں مال ڈھور نہیں : (ف1) جاہلیت میں عورت مال ڈھور کی طرح قابل بیع وشرا تھی اور جب کوئی آدمی مر جاتا تو اس کی سوتیلی اولاد اس کی وارث ٹھہرتی ، ان آیات میں بتایا کہ تم ان پر جبر وستم روا نہیں رکھ سکتے ، وہ تمہاری طرح جذبہ عزت نفس سے بہرہ ورہ ہیں اور انہیں بھی تمہاری طرح پوری عزت کے ساتھ زندہ رہنے کا حق ہے اور یہ طریق بالکل ناجائز ہے کہ تم انہیں محض اس لئے تنگ رکھو کہ وہ تمہیں کچھ دے کر طلاق حاصل کریں ۔ ﴿وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾کے معنی یہ ہیں کہ عورت سے حسن سلوک از قبیل فرائض وواجبات ہے ۔ ﴿فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا﴾میں ازدواجی زندگی کا ایک بیش قیمت نکتہ بیان فرمایا ہے یعنی بیوی میں اگر کوئی امر نقیض نہ ہو تو حتی الوسع چشم پوشی اور ایثار سے کام لینا چاہئے ، ہو سکتا ہے کہ تمہارا یہ ایثار بیوی کے دل میں تمہارے لئے بہت زیادہ احترام پیدا کر دے جس سے تمہاری زندگی مزے سے کٹے گی ، بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اکثر اس بات سے ملول رہتے ہیں کہ ان کی بیوی ان کے معیار کےمطابق قبول صورت نہیں یا اتنی مال دار نہیں ، جیسا کہ وہ چاہتے ہیں ، اور یا وہ اس درجہ تعلیم یافتہ نہیں جو ان کے لئے باعث فخر ہو سکے ، یہ لوگ اگر تھوڑے سے ایثار سے کام لیں تو یہ ملال دور ہو سکتا ہے کیا ان لوگوں نے کبھی یہ غور کیا ہے کہ خود ان کی کیا قوت ہے ۔ ہندوستان اور پاکستا ن کی شریف اور اطاعت گزار عورتیں بدصورتی ، غربت اور بدوضعی کے تمام عیوب کے باوجود اپنے خاوندوں سے محبت رکھتی ہیں ، کیا یہ رویہ قابل صد تحسین نہیں ۔ حل لغات : كَرْهًا: جبر ۔ زبردستی ۔