سورة الرحمن - آیت 54

مُتَّكِئِينَ عَلَىٰ فُرُشٍ بَطَائِنُهَا مِنْ إِسْتَبْرَقٍ ۚ وَجَنَى الْجَنَّتَيْنِ دَانٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور وہ ایسے فرشوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے جن کے استردبیز ریشم کے ہوں اور باغوں کے پھل بہت ہی قریب ہوں گے

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

دورِ عیش کا آغاز ف 2: جنت نام ہے ۔ پوری آسودگی اور کامل عیش کا ۔ اور ایسی جگہ کا جہاں ہر آن اللہ کے فضل کی بارش ہوتی ہے ۔ اور انسان کو ہر نوع کے انعامات سے نوازا جاتا ہے ۔ یہ مقام ہے ، اللہ کی رحمت اور عفو کا ۔ یہ ٹھکانہ ہے ۔ ایسے لوگوں کا جنہوں نے اللہ کی رضا کے لئے ہر جذبہ کو ٹھکرایا ہے ۔ اور تکلیفوں او صعوبتوں کو برداشت کیا ہے ۔ جنہوں نے مال ودولت کی پرواہ نہیں کی ۔ جنہوں نے مال ودولت کی پرواہ نہیں کی ۔ اور فقر میں استغنا کا ثبوت دیا ہے *۔ جنہوں نے روح کی تسکین کے لئے جسم کی تذلیل کی ہے ۔ اور مظاہرہ عبودیت میں اپنا سب کچھ اس کی راہ میں صرف کیا ہے ۔ ان لوگوں کے لئے اب دور عیش وتقرب ہے ۔ ان لوگوں سے کہا جائے گا ۔ کہ وہ آلام ومصائب کا وقت گزر چکا ہے ۔ اب اللہ کے فضل وکرم کا دور دورہ ہے ۔ آؤ اور اس کی رحمتوں سے فیضیاب ہو *۔ فرمایا : جنت میں جو میوے ہوں گے ۔ وہ جھکے ہوں گے ۔ اور اہل جنت کے قریب تر ہوں گے ۔ اس طرح کہ جہاں انہوں نے کی پھل کے لئے خواہش کی ۔ درخت کی شاخیں پھلوں اور میو وں سے لدی ہوئی اس کی جھولی میں آرہی گی ۔ نہ جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ اور نہ انتظار کی تکلیف ۔ یہ عجیب لطیفہ ہے ۔ کہ جو لوگ دنیا میں بینیاز ہیں ۔ عقبیٰ میں بھی اللہ ان کی شان بےنیازی کو قائم رکھے گا *۔ حل لغات :۔ افداب ۔ فئن کی جمع ہے ۔ یعنی شاخیں * استبرق ۔ موٹا اور دبیر ریشم * یطمھن ۔ طلمت ۔ جماع *۔