اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ
قیامت قریب آپہنچی اور چاند پھٹ گیا (١۔ ٢)
سورۃ القمر اس سورت کا آغازایک عظیم الشان خراق عادت کے طور پر ہوتا ہے ۔ بات یہ تھی ۔ کہ کفار مکہ ایک طرف تو قیامت کے تخیل کا مضحکہ اڑاتے تھے اور دوسری طرف کسی حیران کن معجزہ کے طالب تھے ۔ جو ان کی نظروں میں خیر کی پیدا کردے اور ان کے حواس معطل کرکیرکھ دے ۔ جس کو وہ دیکھیں اور اس کی کوئی عقلی توجیہ پیش نہ کرسکیں ۔ چنانچہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے ۔ کہ ایک بھرے مجمع میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ ہوا ۔ کہ یہ چاند جو نظر آرہا ہے ۔ اس کے دو ٹکڑے ہوجائیں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنا ۔ انگلی سے اشارہ کیا ۔ تو چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے ۔ لوگوں میں ہل چل مچ گئی ۔ کچھ حیرت تھی کچھ نہ ماننے کی قید اس لئے اس عظیم الشان معجزہ کو دیکھ کر بھی وہ یہی کہہ سکے ۔ کہ یہ جادو ہے ۔ نظر بندی ہے ۔ اور سحر ہے ۔ مقصد یہ تھا کہ ایک طرف تو وہ اس خرتی وحتیام کو دیکھیں اور اپنے مشاہدہ سے سارے فلسفہ یونان کو جھٹلا دیں ۔ اور دوسری طرف قیامت کے امکانات ان پرزیادہ روشن ہوجائیں ۔ انہیں معلوم ہوجائے ۔ کہ جس طرح یہ کرہ نور آن کی آن میں دو ٹکڑوں میں منقسم ہوگیا اور پھر جڑ گیا ۔ اسی طرح قیامت آئے گی اور یہ یوم بفضلہ بچھر جانے کے بعد پھر سدھر جائیگی ۔ یہی وجہ ہے ۔ وانشق القمر سے پہلے اقترب الساعۃ کو بیان فرمایا اور اس معجزہ کو قیامت کی نشانی قرار دیا ہے ۔ مگر بعض لوگوں نے اس باریک نکتہ کونہ سمجھا ۔ اور یہ کہا ۔ کہ قرب قیامت کا ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے ۔ کہ یہ واقعہ قیامت کو ہوگا ۔ اس وقت چاند پھٹے گا اور اور ستارے گرینگے ۔ لیکن یہ صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ اس واقعہ کو قرآن نے آیت اور بہت بڑی نشانی قرار دیا ہے ۔ اور وہ لوگ جو اس کو نہیں مانتے ان کے متعلق کہا ہے ۔ کہ یہ لوگ خواہش کی پیروی میں مبتلا ہیں ۔ اگر اس کا تعلق قیامت سے ہوتا ۔ تو پھر نہ اس کو نشانی قرار دینے کی ضرورت تھی نہ سحر اور جادو کہنے کی ۔ اور نہ تکذیب کا کوئی موقع تھا ۔ اور نہ خواہشات کی پیروی کا ۔ کیونکہ جب چاند کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے ۔ اور بساط ہی الٹ دیجائیگی اس وقت لوگوں زندہ رہنے اور غدر ومقدرت کرنے کا وقت ہی کہاں ملے گا * وہ تو ایک گھڑی میں سارا کھیل ہی ختم ہوجائیگا ۔ ان حالات میں آنکھیں کھلیں گی ۔ اور سرکش اور متمروانعان دیکھے گا ۔ کہ جس چیز میں بھی جھٹلاتا تھا وہ میرے سامنے آج موجود ہے ۔ آیات کے انداز بیان سے ہی مفہوم اور ہترشیح ہے ۔ کہ یہ کوئی اہم واقعہ ہے ۔ جو گزر چکا ہے ۔ جو اس قابل تھا کہ یہ لوگ اس سے عبرت حاصل کرتے ۔ مگر انہوں نے اپنی روایتی بدبختی کی وجہ سے نہیں مانا ۔ صحیح اور واضح تر احادیث میں بھی اس کی تفصیلات موجود ہیں ۔ رہے وہ اعتراضات جو عقل وحکمت کے نام سے پیش کئے جاتے ہیں ۔ تو اس کا صرف ایک جملہ میں یہ جواب ہے کہ اگر خدا پر ایمان ہے تو پھر کوئی چیز بھی ناممکن نہیں *۔