سورة آل عمران - آیت 183

الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّىٰ يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ ۗ قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّذِي قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ : اللہ نے ہم سے یہ وعدہ لیا ہے کہ کسی پیغمبر پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی لے کر نہ آئے جسے آگ کھا جائے۔ (٦٣) تم کہو کہ : مجھ سے پہلے تمہارے پاس بہت سے پیغمبر کھلی نشانیاں بھی لے کر آئے اور وہ چیز بھی جس کے بارے میں تم نے ( مجھ سے) کہا ہے۔ پھر تم نے انہیں کیوں قتل کیا اگر تم واقعی سچے ہو؟

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

سوختی قربانی : (ف1) امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ کعب اشرف ‘ کعب بن اسد اور دوسرے اکابر یہود حضور انور (ﷺ) کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ توراۃ میں لکھا ہے جب تک کوئی نبی سوختی قربانی کا معجزہ نہ دکھائے ، قابل تسلیم نہیں ۔ اور اس کی صورت یہ ہے کہ ذبیحہ ایک مخصوص مکان میں رکھا جائے جس کی چھت نہ ہو ۔ آسمان سے آگ نازل ہو جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور وہ آکر اس ذبیحہ کو جلا دے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ اس نوع کا مطالبہ یہودیوں کی طرف سے بعید نہیں اس لئے کہ وہ سخت جامد اور اوہام پرست تھے ، مگر مشکل یہ ہے کہ توراۃ میں سرے سے نبوت کا یہ معیار ہی مذکور نہیں اور قرآن حکیم کے الفاظ یہ ہیں کہ یہودی کہتے تھے ۔ ﴿إِنَّ اللَّهَ عَهِدَ إِلَيْنَا جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہودیوں کو اپنے مذہبی عقیدہ کی بنا پر حضور (ﷺ) کی نبوت کے متعلق شبہ تھا مگر وہ مذہبی عقیدہ کیا تھا ؟ اس کی پوری تفصیل قرآن حکیم میں مذکور نہیں ۔ توراۃ کے عمیق مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سوختی قربانی کا یہودیوں میں بہت رواج تھا ، ممکن ہے یہودیوں نے جب یہ دیکھا ہو کہ مسلمان قربانی کو جلاتے نہیں کھاتے ہیں تو ان کے دل میں شبہ پیدا ہوا ہو کہ یہ ہماری روایات مذہبی کے خلاف ہے اس لئے صحیح نہیں ۔ قرآن حکیم کے الفاظ میں آگ کے آسمان سے اترنے کا کہیں ذکر نہیں اور نہ کسی صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ پہلے آگ آسمان سے اترا کرتی تھی ، (بجز اس قسم کی روایات کے جو تفسیر کی کتابوں میں مذکور ہیں اور مستند نہیں) اس لئے صاف ظاہر معنی یہ ہوں گے کہ یہودیوں کا مطالبہ تھا کہ حضور (ﷺ) سوختی قربانی کو ان کے سامنے پیش کریں ۔ اس شبہ کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ تم ان سے پوچھو کہ انہوں نے پہلے انبیاء علیہم السلام کا کیوں انکار کیا ؟ حالانکہ انہوں نے ان کے عام مطالبات کو پورا کیا تھا ۔ بات یہ ہے کہ یہ لوگ انکار کرنے کے بعد دل کو تسلی دینے کے لئے اس قبیل کے بہانے گھڑ لیتے ہیں ، ورنہ خدا کے سچے پیغمبروں علیہم السلام نے ان کے اطمینان کے لئے کیا کیا نہیں کیا ۔ دلائل وبراہین کا انبار لگا دیا ۔ معجزات وخوارق سے یہ ورطہ حیرت میں گم ہوگئے مگر پھر بھی انکار بدستور رہا اور یہی کہتے رہے ، یہ جادو ہے اور ہماری آنکھیں عمل سحر سے متاثر کرلی گئی ہیں ۔ حل لغات : تَأْكُلُهُ النَّارُ: آگ نے اسے بھسم کردیا ، جلا دیا ۔