سورة آل عمران - آیت 168

الَّذِينَ قَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ وَقَعَدُوا لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا ۗ قُلْ فَادْرَءُوا عَنْ أَنفُسِكُمُ الْمَوْتَ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے (شہید) بھائیوں کے بارے میں بیٹھے بیٹھے یہ باتیں بناتے ہیں کہ اگر وہ ہماری بات مانتے تو قتل نہ ہوتے، کہہ دو کہ : اگر تم سچے ہو تو خود اپنے آپ ہی سے موت کو ٹال دینا۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف1) قعود استعارہ ہے تخلف عن الجہاد سے ، یعنی وہ منافقین جو جہاد میں شریک نہیں ہوتے اور طرح طرح کے فلسفے چھانٹتے ہیں ، جن کی حیثیت فریب نفس سے زیادہ نہیں ، وہ کہتے ہیں اگر مجاہدین جہاد میں شرکت نہ اختیار کرتے تو ضرور بچ جاتے آج بھی منافقین اور پست ہمت لوگوں کا یہی وطیرہ ہے ۔ جہاد اور قربانی کے نام سے کانپ اٹھتے ہیں اور جب مجاہدین پابجولاں کشاں کشاں جیلوں میں جاتے ہیں تو یہ ناصح مشفق بن کر نہایت ہمدردانہ انداز میں کہتے ہیں کہ اس شورش کا کیا صلہ ملا ؟ یہی ناکہ یہ لوگ قید وبند کی سختیاں جھیلیں گے ۔ قرآن حمید نے ان کے ان اعذار باردہ کو اس لئے دوبارہ سہ بارہ ذکر کیا ہے ‘ تاکہ مسلمان ہر زمانہ میں منافقین کی وسوسہ پردازیوں سے محفوظ رہیں ، کیونکہ یہ گروہ دشمنوں سے بھی زیادہ مضر ہے ، دشمن تو واشگاف طور پر مقابلہ پر آتا ہے ، یہ مسلمان بن کر شجر اسلامی کی بیخ کنی میں مصروف رہتے ہیں ۔ جو سامنے سے آئے ، اس کا علاج تو ممکن ہے ، مگر گھن کا کیا علاج اس لئے اس گروہ سے بچنا نہایت ضروری ہے ۔