سورة محمد - آیت 15

مَّثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۖ فِيهَا أَنْهَارٌ مِّن مَّاءٍ غَيْرِ آسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِّن لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ وَأَنْهَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشَّارِبِينَ وَأَنْهَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى ۖ وَلَهُمْ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ ۖ كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِي النَّارِ وَسُقُوا مَاءً حَمِيمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءَهُمْ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پرہیزگاروں کے لیے جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کی صفت تو یہ ہے کہ اس میں نہریں بہہ رہی ہوں گی جن کا پانی صاف ستھرہواگا اور دودھ کی نہریں ہوں گی جس کے ذائقہ میں ذرہ بھر بھی تبدیلی نہیں آئے گی اور شراب کی نہریں ہوں گی جوپینے والوں کے لیے بہت لذیذ ہوں گی، اور صاف کیے ہوئے شہد کی، اور ان کے لیے اس میں ہر طرح کے پھل ہوں گے اور ان کے رب کی طرف سے بہت بڑی بخشش ہوگی (کیا یہ اہل جنت) ان لوگوں کی طرح ہوسکتے ہیں جو جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور جنہیں کھولتا ہوا پانی پلایاجائے گا جوان کی آنتیں تک کاٹ دے گا

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 2: یہ ان لوگوں کے درجہ کی تشریح ہے ۔ جن کا مطمح نظر صرف جذبہ حیوانیت کی تسکین وتکمیل نہیں ہوتا ۔ بلکہ وہ روح کی پاکیزگی کے لئے بھی کچھ کرتے ہیں ۔ ان کے لئے جو مقام تجویز کیا گیا ہے ۔ اس میں ہر نعمت وفور کے ساتھ موجود ہے وہاں صاف ، شیریں ، اور ٹھنڈے پانی کی نہریں ۔ خوش ذائقہ دودھ کے دریا ، اور نہایت لذیذ شراب اور رسل مصطفیٰ کی نہریں ہوں گی ۔ اور ہر قسم کے پھل اور میوے اور سب سے بڑی بات یہ کہ مولا کی رضا دل کو میسر ہوگی ۔ واضح رہے ۔ کہ خدا گائے اور بھینس کے تھنوں میں دودھ پیدا کرسکتا ہے ۔ وہ بہشت میں نہروں میں بھی اس کو بہاسکتا ہے ۔ اور جس کی قدرت میں یہ ہے ۔ کہ وہ مکھیوں کو شہد جمع کرنے کی قابلیت عطا کردے ۔ وہ یقینا اس سے زیادہ عمدہ ذرائع بھی اختیار کرسکتا ہے ۔ اس لئے ان چیزوں پر اعتراض کرتا درحقیقت اپنی کوتاہ نظری کا ثبوت دینا ہے *۔ حل لغات : ۔ امین ۔ وہ پانی جس کا مزہ اور تو تبدیل ہوجائے * عسل مصفی ۔ خالص شہد *۔