سورة الأحقاف - آیت 4

قُلْ أَرَأَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ ۖ ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِّن قَبْلِ هَٰذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِّنْ عِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے نبی ان سے کہیے بھلا دیکھو توجن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ذرامجھ کو یہ تودکھاؤ کہ انہوں نے زمین میں کیا بنایا ہے یا آسمانوں کے بنانے میں ان کی کوئی شرکت ہے ؟ اگر تم (قبول پیام حق سے) انکار میں سچے ہوتوثبوت میں کوئی کتاب پیش کرو جواب سے پہلے نازل ہوئی ہو (یاکم ازکم) علم وبصیرت کی کوئی پچھلی روایت ہی لا دکھاؤ جو تمہارے پاس موجود ہو۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

بت پرستوں سے سوالات ف 1: جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر پتھروں کو خدا سمجھتے ہیں ۔ یا دوسرے معبودان باطل کو اپنا رب قرار دیتے ہیں ۔ اللہ ان سے پوچھتا ہے ۔ کہ تم یہ بتاؤ ان معبودوں کا تخلیق کائنات کتنا حصہ ہے ۔ کیا انہوں نے زمین کے کسی گوشہ کو بنایا ہے ۔ یا آسمانوں کی تکوین میں مدد فرمائی ہے ؟ یا کسی مذہبی صحیفہ میں لکھا ہے ۔ کہ غیر اللہ کی پوجا کرو ۔ یا علمی دلائل کا تقاضا یہ ہے ۔ کہ رب السموات والارض کو چھوڑ دیا جائے ۔ اور حقیر وبے جان چیزوں کو مقدس جان لیا جائے ! یعنی آخر جب تم اتنی کھلی ہوئی حقیقت کی مخالفت کرتے ہو ۔ تو پھر کچھ تو اس کی وجہ ہونی چاہیے ۔ وہ بتان سنگ جن کو تم الفطرت قوتوں کا مالک سمجھتے ہو ۔ کیوں کائنات کی تعمیر یا تخریب میں اپنی استعدادوں اور صلاحیتوں پر صرف نہیں کرتے ۔ کیوں نئی زمین ان کے پاؤں تلے نہیں بچھا دیتے ۔ تاکہ یہ توحید کے احسانات سے سبکدوش ہوسکیں ۔ اور برملا اپنے ان معبودوں پر فخر کرسکیں ۔ یا اگر تقرب الی اللہ کے لئے ان درمیانی وسائل کی ضرورت اور احتیاج سمجھتے ہو ۔ اور تمہارے خیال میں انسان اس وقت تک معرفت کی منزلوں تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا ۔ جب تک کہ اپنے نفس کو ذلیل نہ کرلے ۔ اور ان اھنام بےاختیار کے سامنے نہ جھک جائے ۔ تو پھر الہامی کتابوں میں اس کا ذکر ضرور ہونا چاہیے تھا ۔ یا کوئی علمی دلیل ہی ہوتی ۔ جو اس دعویٰ شرک کی تائید میں پیش کی جاسکتی ، اور جی کیفیت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بات بھی نہیں ۔ تو پھر یہ کتنی بڑی گمراہی ہے ۔ کہ اللہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش کی جائے ۔ جو قیامت تک آرزوؤں کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے *۔ حل لغات :۔ تفیضون فیہ ۔ یعنی قرآن کے باب میں جس طرح تم روانی سے باتیں کرتے ہو *۔