سورة آل عمران - آیت 159

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ان واقعات کے بعد اللہ کی رحمت ہی تھی جس کی بنا پر ( اے پیغمبر) تم نے ان لوگوں سے نرمی کا برتاؤ کیا۔ اگر تم سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ تمہارے آس پاس سے ہٹ کر تتر بتر ہوجاتے۔ لہذا ان کو معاف کردو، ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو، اور ان سے (اہم) معاملات میں مشورہ لیتے رہو۔ پھر جب تم رائے پختہ کر کے کسی بات کا عزم کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔ اللہ یقینا توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

بادشاہ اقلیم وعفو : (ف2) عسکری قانون یہ ہے کہ جو لوگ میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں ، انہیں جان سے مار دیا جائے ، مگر شہنشاہ اخلاق چونکہ صرف سالار عسکر ہی نہیں تھے ‘ طبیب امراض قلوب بھی تھے ‘ اس لئے لوگوں کو معاف کردیا اور خندہ پیشانی سے پیش آئے ، اس آیت میں اسی خلق عظیم کی تشریح ہے کہ آپ رحمت خداوندی کے مظہر اتم ہیں اور بالخصوص خدائے رحیم نے آپ (ﷺ) کو لوائے عفو واخلاص دے کر بھیجا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہزاروں پروانے آپ (ﷺ) کے گردا گرد جمع ہیں اور اکتساب ضو میں مصروف ہیں ، پس آپ (ﷺ) ان سے عفو واستغفار کا سلوک روا رکھیں اور ہر بات میں ان سے مشورہ کرلیں تاکہ ایک طرف ان کی دلجوئی ہوجائے اور دوسری طرف یہ لوگ اپنی ذمہ داری محسوس کریں ۔ شورائی نظام حکومت : (ف3) باوجود اس کے کہ حضور (ﷺ) صاحب الہام ووحی ہیں ، ہر آن مظہر مہبط انوار وتجلیات ہیں ، مجبور ہیں کہ نظام حکومت شورائی رکھیں ، آپ (ﷺ) کا نطق ، نطق خدا ہے ، پھر بھی خطاکاروں سے مشورہ طلبی کا حکم ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام بہرحال ایک ایسے نظام حکومت کا مؤید ہے جس میں تمام قوم کے جذبات وخیالات کی صحیح صحیح ترجمانی ہو ۔ یورپ آج جمہوریت کے تخیل کو وضع کرسکا ہے اور اس میں بھی صدہا نقائص ہیں ، مگر اسلام آج سے تیرہ صدیاں پہلے اس حقیقت کو بیان کرچکا ہے ۔ صدر شورائیہ کے اختیارات : (ف1) ﴿فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ﴾ میں رسول خدا (ﷺ) کو مخاطب فرمایا ہے ، یعنی مشورہ طلبی کا مطلب صرف یہ ہے کہ قوم کے خیالات معلوم کئے جائیں ، مگر آخری اختیارات آپ (ﷺ) کو حاصل ہیں ۔ اس سے موجودہ نظام جمہوریت کا بنیادی نقص واضح ہے یعنی امیر جماعت یا خلیفہ صرف نمائندہ ہی نہیں ہوتا ، بلکہ قائد بھی ہوتا ہے ، اس لئے صرف کام لینا چاہئے موجودہ نظام میں سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ صدر محض نمائندہ ہوتا ہے اور اس طرح ووٹ دیانتداری پر مبنی نہیں ہوتے ، محض پارٹی بازی کے لئے ووٹ بڑھائے جاتے ہیں ، صدر کو آخری اختیارات تفویض کردینے کے معنی یہ ہیں کہ پارٹی بازی ختم ہوجائے گی ۔